کیا تحفظِ ماحول اقتصادی ترقی پر دباؤ بڑھا رہا ہے؟
4 جولائی 2021دنیا میں ماحولیاتی تحفظ کا موضوع سن انیس سو ستر کی دہائی سے زیر بحث آنا شروع ہوا۔ اس وقت سے یہ بحث جاری ہے کہ تحفظِ ماحول نے معاشی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے اور مسابقتی عمل بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ اس کے جواب میں ماحول دوستوں کا موقف ہے کہ تحفظِ ماحول کی پالیسیوں نے تجارت کے مسابقتی عمل کے کئی دروازے کھولے ہیں اور ان کو ان ممالک پر برتری ملی ہے جو ماحول دوست پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ اب ایسا بھی سوچا جا رہا ہے کہ اقتصادی ترقی اور تحفظِ ماحول ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔
تاریخی عمارات کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے بیکٹیریا
کیا جی ڈی پی مناسب اشاریہ ہے؟
جی ڈی پی کسی بھی ملک کی ترقی کی پیمائش کا بنیادی پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ معیار کیا ہے جو یہ بتائے کہ پیداوار اور خوشحالی کیسے ماپی جائے۔ جرمن شہر کیل میں واقع انسٹیٹیوٹ برائے ورلڈ اکانومی کے ذیلی ادارے گلوبل کامنز اینڈ کلائمیٹ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر وِلفرائیڈ ریکلز نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے جی ڈی پی کو ترقی کا ایک انتہائی مناسب اشاریہ قرار دیا ہے۔
ریکلز نے بھی واضح کیا کہ ماحولیاتی تنوع کو پہنچنے والے نقصان کا احساس عالمی معاشرت کو بھی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے ماحولیاتی نقصان کو ممالک کے جی ڈی پی میں براہِ راست شمار نہیں کیا جاتا۔
دوسری جانب نیشنل بیورو برائے اکنامک ریسرچ پیپرز کے مصنفین نے اپنے تجزیوں میں ظاہر کیا کہ سن 2100 تک درجہ حرارت میں 0.04 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافی حقیقت میں عالمی جی ڈی پی میں 7.22 فیصد کی گراوٹ کا باعث بنے گا۔ اس تجزیے میں بیان کیا گیا ہے کہ جو ممالک پیرس کلائمیٹ معاہدے میں درجہ حرارت میں اضافے کو 0.01 ڈگری سینٹی گریڈ ساتھ جوڑیں گے، ان کا جی ڈی پی کا نقصان 1.07 فیصد تک ہو گا۔
تحفظ ماحول کے لیے دنیا اپنی کوششیں بڑھائے، عمران خان
اقتصادی ترقی اور تحفظِ ماحول
ماہرین کا خیال ہے کہ اقتصادی ترقی اور تحفظِ ماحول کا انحصار ایک دوسرے پر ہے اور یہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بیس برس قبل شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب ماحول دوستی کی افزائش کے بعد یہ ایک منفعت بخش کاروبار کا روپ دھار گیا ہے۔ فی الوقت سولر انرجی میں نئی پیش رفت اور اختراعات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس پیش رفت نے نوکریوں کے نئے مواقع پیدا کیے، انرجی کے اخراجات کم ہوئے اور ماحول دوست اقتصادیات پھلنے پھولنے لگی۔
غریب ملکوں کی مجبوری
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم جرمن انسٹیٹیوٹ برائے اکنامک ریسرچ (DIW Berlin) کے شعبے کلائمیٹ پالیسی ڈیپارٹمنٹ کر سربراہ کارسٹن نوئے ہوف کا کہنا ہے کہ سولر انرجی اب ایک ٹیکنالوجی کا روپ دھار چکی ہیں اور کئی اُن ممالک میں استعمال کی جا رہی ہے جو ماحول دوست پالیسیوں کو فوقیت بھی نہیں دیتے، ویسے بھی یہ انرجی سستی بھی ہے۔ نوئے ہوف کا مزید کہنا ہے کہ اب دنیا میں توانائی کے مفید ہونے کی سوچ بھی مقبول ہوتی جا رہی ہے۔
سب سے زیادہ ماحولياتی خطرات کے شکار شہر: سو ميں سے ننانوے ایشیا میں
ماحول دوستی اور معاشی ترقی کے اشاریے امیر ملکوں کے حوالے سے تو اچھے لگتے ہیں لیکن دوسری جانب اس ساری بحث کا یہ ایک افسوسناک پہلو ہے کہ غریب اقوام کو تحفظِ ماحول اور اقتصادی ترقی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی مجبوری کا سامنا ہے۔
رابرٹ مُڈ گے (ع ح / ک م)