کیا زرداری اسٹیبلشمنٹ کا کھیل کھیل رہے ہیں؟
19 مارچ 2021غیر اعلانیہ رابطوں کے ذریعے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز یا نون میں پیدا ہو جانے والے حالیہ اختلافات کے خاتمے کے لیے تگ و دو جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کو توڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں لیکن وہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اور انہیں امید ہے کہ پیپلز پارٹی مثبت جواب دے گی۔
کیا پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ میں پیدا ہونے والی تلخیاں ختم ہو سکیں گی؟
اس سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سیاسی تجزیہ کار امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے خلاف میاں نواز شریف کی قانونی جنگ سمیت کئی موقعوں پر ان جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والی بڑی بڑی رنجشیں بھلائی جا چکی ہیں: ''اصل بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو اس کے سوالوں کے جواب نہیں مل سکے ہیں۔ کوئی نہیں بتا رہا کہ استعفوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اپوزیشن کے استعفوں کے بعد حکومت جنرل الیکشن کروا دے گی۔ اور وہ ضمنی الیکشن نہیں کروائے گی۔‘‘
اسٹیبلشمنٹ سے دوستی یا پھر جمہوریت بہترین انتقام؟
ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے فضل الرحمان کو استعمال کیا ہے، حافظ حسین احمد
اعلیٰ ایوانوں میں ضمیر بیچا جائے گا تو ملک کا کیا ہو گا؟ عمران خان
امتیاز عالم کے خیال میں اب پیپلز پارٹی حتمی طور پر استعفے نہ دینے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اور مسلم لیگ نون بھی پیپلز پارٹی کے اس فیصلے کے پیچھے پناہ لیے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق نون لیگ کے پارلیمنٹیرینز بھی استعفے دینا نہیں چاہتے۔
امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم برقرار رہے گا لیکن اس کی تشکیل نو ہونے جا رہی ہے۔ ان کے بقول مارچ اپریل میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کر لینے کا اپوزیشن جماعتوں کا اندازہ درست کیلکولیشن پر مبنی نہیں تھا۔ ان کے بقول پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کی دھرنے اور لانگ مارچ کی تیاری مکمل نہیں تھی اور یہ صورتحال مولانا فضل الرحمان کے لیے مایوسی کا باعث تھی۔ اس لیے انہوں نے لانگ مارچ کو دھرنے سے جوڑ کر جو دھماکا کیا اس سے ایسی صورت حال بن گئی جس میں اپوزیشن کے سب سے بڑے اتحاد کے اعصاب جواب دے گئے۔
امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم کا 26 نکاتی ایجنڈا اپوزیشن کو بار بار اکٹھا کرے گا اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور دوسرے اداروں کے ساتھ حکومت جو سلوک کر رہی ہے اس کے پیش نظر اپوزیشن جماعتوں کو پی ڈی ایم کو برقرار رکھنے کی ضرورت رہے گی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا زرداری صاحب کا استعفے نہ دینے کا فیصلہ ان کی
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی غیر اعلانیہ مفاہمت کا حصہ ہو سکتا ہے؟
امتیاز عالم کے خیال میں ایسا نہیں ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اگر پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوتی تو سید یوسف رضا گیلانی سینٹ کے چیئرمین ہوتے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں ہوسکتی اگر نیوٹرل ہوتی تو حالات کچھ اور ہوتے۔ اب پاکستان میں کوئی انقلابی جماعت باقی نہیں بچی، پیپلز پارٹی کا ڈنگ بھی نکل چکا ہے۔ ادھر شاہد خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ ہم پرانے سسٹم میں کام نہیں کریں گے۔ سسٹم بدلنے کے لیے تو پھر انقلابی جماعت چاہیے ہوتی ہے جو کہ اس وقت پاکستان میں نہیں ہے۔
مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ آنے والے دن حکومت کے لیے بہت مشکل ہوں گے: ''حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد میں جو اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے اس کی اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ بجٹ کے بعد اپوزیشن کے طرف سے ایک نیا حملہ متوقع ہے لیکن یہ حکومت خود ہی ناکام ہو رہی ہے۔ اپوزیشن تو ایک طرف یہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔‘‘
کیا ان حالات میں عمران حکومت اپنی مدت پوری کر سکے گی؟
ممتاز صحافی نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات اتنے خراب ہو جائیں کہ وزیر اعظم تبدیل کرنا پڑے لیکن وزیر اعظم کی تبدیلی کے باوجود حکومت وہی کریں گے جو کرتے رہے ہیں۔ نصرت جاوید کے بقول، '' اسٹیبلشمنٹ کے رابطے سب کے ساتھ ہوتے ہیں نواز شریف بھی تو کسی مفاہمت کے نتیجے میں ہی باہر گئے تھے۔‘‘
نصرت جاوید بھی مستقبل قریب میں کسی لانگ مارچ کا امکان نہیں دیکھتے۔ ان کے خیال میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اختلافات وقتی طور پر دب بھی جائیں تو پھر بھی ان کی سوچ کا فرق برقرار رہے گا۔