اسٹیبلشمنٹ سے دوستی یا پھر جمہوریت بہترین انتقام؟
18 مارچ 2021وہ یہ کہ ملکی سیاست میں جب بھی کوئی حکومتی اتحاد بنا ہے، اسے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ضرور حاصل ہوتی ہے اور شاید ان کی حمایت کی بنا پر ہی کسی حکومت کو بنایا اور گرایا جا سکتا ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد کے آغاز میں سابق صدر آصف زرداری نے سیاست میں نومولود اور اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو آگے رکھا تاکہ نوازشریف کی جارحانہ مزاج رکھنے والی بیٹی مریم نواز اپنے مصلحت پسند چچا کو پیچھے چھوڑ کر آگے آئیں۔
میل ملاقاتیں، اتحاد اور مشترکہ تحریک چلتی رہی مگر آصف زرداری کے لئے سب سے اہم معاملہ بلاول کے مستقبل کا رہا۔ لہذا وہ پس پردہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مسلسل رابطے کرتے رہے اور یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ عمران خان کا متبادل بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی ہی ہو سکتے ہیں۔
مریم نواز کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ کرنے والے بیانات کو آصف علی زرداری نے ستائش کی نظر سے نہیں دیکھا جبکہ بلاول نے بھی اپنی توپوں کا رخ صرف اور صرف عمران خان اور ان کی حکومتی کارکردگی کی جانب رکھا۔ آصف زرداری کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کو مضبوط بنانے میں ان کی دور صدارت کے دو ریٹائرڈ جرنیلوں نے اہم کردار ادا کیا۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ سے خوشگوار رابطوں کا آغاز تھا مگر ساتھ ہی سابق صدر کا مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کے بعض اقدامات اور ان کی گرفتاری کے حوالے سے دل صاف نہیں تھا۔ وہ نجی محفلوں میں اپنے ان خیالات کا اظہار کھل کر کیا کرتے تھے، وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ نواز شریف کو پنجابی ہونے کی وجہ سے رعایت دی گئی ہے مگر سندھی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی رعایت نہیں ہے، لہذا موقع دیکھ کر آصف علی زرداری نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے اپنے رابطے ایک مرتبہ پر استوار کر لیے۔
دوسری مرتبہ اسٹیبلشمنٹ سے پیپلز پارٹی کے تعلقات میں بہتری کے اشارے اس وقت واضح ہونا شروع ہوئے، جب مریم نواز کے دورہ کراچی کے موقع پر ان کے شوہر کو سندھ پولیس نے ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کر لیا۔ معاملہ پیپلز پارٹی کی ساکھ کا تھا، آئی جی سندھ نے خفیہ اداروں کے رویے پر اپنا عہدہ چھوڑنے کی دھمکی دی، معاملات خراب ہوئے تو شام کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاول بھٹو کو فون کیا۔ واقعے میں ملوث خفیہ ادارے کے مقامی سربراہ کو تبدیل کر دیا گیا اور یوں اس رابطے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کا واضح جھکاؤ پیپلز پارٹی کی طرف نظر آیا۔ آصف زرداری نے اپنے فن سیاست سے مسلم لیگ ن کو بھی مطمئن کر دیا اور ان کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کو مزید تقویت پہنچی۔
مولانا فضل الرحمان اور سابق وزیراعظم نواز شریف جیسے ماہر سیاستداں اپنے رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود سابق صدر آصف زرداری پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار ہوئے تھے۔ حالانکہ شہباز شریف، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کے بیانات ریکارڈ پر ہیں، جن میں انہوں نے سابق صدر آصف زرداری کو ناقابل بھروسہ قرار دیا تھا۔
پی ڈی ایم کے قیام میں وزیراعظم عمران خان کے بے لچک رویے، تحریک انصاف کے رہنماوں کے غیر پارلیمانی کردار اور ان کی جماعت کے سوشل میڈیا بریگیڈ کے حملوں نے بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان سمیت نو سیاسی جماعتوں کو نظریہ ضرورت کے تحت یکجا کر دیا تھا۔
آصف علی زرداری کے قریبی رفقاء کے مطابق پیپلز پارٹی کو عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ دراصل وہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد آئندہ حکومت کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ بلاول بھٹو آئندہ دو ڈھائی سال میں اپنے آپ کو بطور سیاسی رہنما منوا کر وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے قابل ہو جائے۔ دوسری جانب ان کی صحت بھی روز بہ روز گرتی جا رہی ہے۔ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو بلاول فی الحال یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ والد کے بغیر وہ پیپلز پارٹی جیسی جماعت کو یکجا رکھ سکیں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کچھ عرصہ قبل اپنی بہن کی عیادت کے لیے بیرون ملک گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دراصل اسٹیبلشمنٹ کا خصوصی پیغام لے کر لندن میں میاں نواز شریف سے ملے مگر نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی پیشکش ٹھکرا دی کیونکہ مریم نواز کے سخت بیانات کو پنجاب میں مقبولیت ملی ہے، لہذا پیپلز پارٹی نے پنجاب میں قدم جمانے کے لیے اندرون خانہ اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملایا ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے لانگ مارچ سے قبل اسمبلیوں سے استعفے دینے سے انکار کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے آصف علی زرداری پوری طرح آگاہ ہیں۔ انہوں نے حکمت عملی کے تحت مسلم لیگ ن سے ووٹ لے کر یوسف رضا گیلانی کو منتخب کروایا۔ وزیراعظم عمران خان گیلانی کے سینیٹر منتخب ہونے پر اسٹیبلشمنٹ سے ناراض تھے، آرمی چیف جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے ملاقات کی اور جب چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوا تو نتیجہ مختلف تھا۔
اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ کہلانے والے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کو واضح پیغام دے دیا تھا کہ یوسف رضا گیلانی سینیٹر بن گئے لہذا چیئرمین سینیٹ کے معاملے میں صرف بیانات کی حد تک رہیں تو بہتر ہے اور ساتھ ہی مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر شکست میں بھی پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر عمل کیا۔ مولانا فضل الرحمان کی ناراضگی کی ایک بڑی وجہ پیپلز پارٹی کی طرف سے 'دھوکا‘ بھی ہے۔ آصف علی زرداری کی اس 'سیاسی چالوں‘ کو ہی کہا جاتا ہے کہ 'جمہوریت بہترین انتقام‘ ہے۔
مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے پیغامات شاہد خاقان عباسی کے ذریعے میاں نواز شریف تک بھی پہنچے ہیں کہ اگر شعلہ بیانی کی بجائے مفاہمت سے کام لیا جائے تو جلد یا بدیر سے معاملات بہتری کی جانب جا سکتے ہیں مگر میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی زباں بندی کو تیار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ انہیں پنجاب میں اسی بیانیے پر مقبولیت ملی ہے۔ دیگر صوبوں میں نواز لیگ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پیپلز پارٹی موجود ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل ہو جائے تو پنجاب میں دوبارہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت بڑھ سکتی ہے۔
پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز دو ہی بڑی جماعتیں ہیں، جو عمران حکومت کے خاتمے کی صورت میں برسر اقتدار آسکتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور نواز لیگ کی فی الحال مفاہمت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی لہذا سابق صدر آصف زرداری کہ ابتدا سے یہی کوشش ہے کہ نظام میں رہ کر ہی اپنے لیے کوئی راستہ بنایا جائے۔ اسی نقطے کو مدنظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم میں رہتے ہوئے بھی خود کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جزوی اور معتدل مزاج حریف کے طور پر پیش کیا تاکہ بوقت ضرورت خود کو عمران خان کے متبادل کے طورپر پیش کیا جا سکے جبکہ نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان ایوانوں سے استعفے دے کر پورے نظام کو ہی لپیٹنے کے لئے کوشاں ہیں۔
پی ڈی ایم عملی طورپر تو مر چکی ہے بس پیپلز پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹیو کونسل کے اجلاس میں استعفی نہ دینے کی رائے کی صورت میں اپوزیشن اتحاد کی تدفین کا اعلان ہونا باقی رہ گیا ہے۔ آصف زرداری کے سامنے بلاول بھٹو سمیت کون سا ممبر اختلاف کی جرات کرے گا؟
اس کا انحصار اب آپ پر ہے کہ آپ ان تمام معاملات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ان کو اسٹیبلشمنٹ سے دوستی سمجھ لیں یا پھر یہ سمجھ لیں کہ 'جمہوریت بہترین انتقام‘ ہے۔