1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا شنگھائی تعاون تنظیم امریکا کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
1 دسمبر 2017

پاکستانی وزیر اعظم کی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں کی جانے والی تقریر کو پاکستانی تجزیہ نگاروں نے سراہا ہے اور ان کے خیال میں پاکستان کو اس پلیٹ فارم کوعلاقائی وحدت کو فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2odbw
Kassachstan Indien und Pakistan werden Mitglieder im Schanghai-Kooperations-Rat
تصویر: picture alliance/abaca/D. Sultan

روس کے علاقے سوچی میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ سیاست کو علاقائی معاشی ترقیاتی کاموں سے دور رکھا جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھاکہ عالمی ترقی کا محور اب مشرق کی طرف ہوتا جارہا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم، جسے ایس سی او بھی کہا جاتاہے، عالمی سیاسی نظام میں اپنے لیے ایک نئی جگہ بنا رہی ہے۔

افغان خطرات کے خلاف مضبوط دفاع کی ضرورت ہے، روس

سیاسی مبصرین کے خیال میں پاکستان کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ ایس سی او آئندہ دہائیوں میں ایک طاقتور تنظیم کے طور پر ابھرے گی۔ اسی لیے اسلام آباد اس تنظیم میں بھر پور کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ کئی ماہرین کے خیال میں یہ تنظیم بین الاقوامی سیاسی نظام میں امریکی و مغربی اجارہ داری کو چیلنج کر سکتی ہے۔

نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام کے شعبہ سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں اس تنظیم کے دو اہم ارکان چین اور روس ہر جگہ امریکی پالیسیوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’امریکا نے بشار الاسد کو تنہا کرنے اور اس کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی، لیکن وہاں روسی مداخلت نے پورے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل دیا۔ واشنگٹن نے تہران اور اسلام آباد کو تنہا کرنے کی کوشش کی تو چین اور روس نے یہاں ان دونوں ممالک کا ہاتھ پکڑا اور انہیں بین الاقوامی تنہائی سے بچایا۔ اب روس اور چین اس تنظیم کے ذریعے نہ صرف افغانستان میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ ماسکو اور بیجنگ آنے والے وقتوں میں بھارت اور پاکستان کو بھی قریب لائیں گے۔‘‘

برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم ’ایک پہیلی‘، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بکر نجم الدین نے کہا،’’نئی دہلی صرف انا پسندی کا شکار ہے ورنہ اگر آپ دیکھیں کہ کئی مغربی ممالک، جو امریکا کی یکطرفہ پالیسیوں سے پریشان ہیں، وہ بھی چین اور روس کے اس فلسفے سے متفق نظر آتے ہیں کہ دنیا میں طاقت کے ایک سے زیادہ محور ہونے چاہییں۔ جلد یا بدیر نئی دہلی کو بھی احساس ہو جائے گا کہ اسے بھی علاقائی تعاون کی طرف جانا چاہیے۔‘‘

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کے خیال میں عالمی طاقت کا مرکز اب ’گلوبل نارتھ‘ سے ’گلوبل ساؤتھ‘ کے طرف منتقل ہورہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے اس موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ایس سی او ایک طاقتور تنظیم کے طوپر ابھر رہی ہے۔ اس تنظیم میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت نے اسے مزید مضبوط بنا دیا ہے اوراس بات کا امکان بھی پیدا ہوگیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے دوطرفہ مسائل کا حل ڈھونڈا جائے اور افغانستان میں امن و استحکام لایا جائے، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ ایران، روس، چین اور بھارت کوبھی فائدہ ہوگا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس بات کے کچھ زیادہ حق میں نہیں ہے کہ نئی دہلی سے تعلقات بہت بہتر کیے جائیں۔ عامر حسین کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں انہیں یہ رویہ بدلنا پڑے گا۔ چین صرف پاکستان میں ہی سرمایہ کاری نہیں کر رہا بلکہ بھارت میں بھی ستر بلین ڈالرز لگانے جا رہا ہے۔ جب دونوں ممالک میں بیجنگ کی سرمایہ کاری ہوگی تو چینی کیوں اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کشیدگی چاہیں گے۔ تو میرے خیال سے چین پاکستان کو راضی کرے گا کہ وہ بھارت سے معاملات بہتر کرے اور بھارت کو بھی معاشی ترقی کے لیے اپنی انا پسندی کو چھوڑنا پڑے گا اور یہ سب کچھ ایس سی او کے پلیٹ فارم سے ممکن ہے۔‘‘

پاکستان اور بھارت: SCO بلاک کی رکنیت کے لیے پیشرفت