کیا پاکستانی معیشت سمندر برد ہونے والی ہے؟
19 جولائی 2022پاکستان میں مسلسل بڑھتا سیاسی عدم استحکام ملکی معیشت کو سمندر برد کرنے کی جانب دھکیل رہا ہے، خصوصاً دو روز قبل ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد سے سیاسی صورت حال کی غیر یقینی کا یہ عالم ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ دیکھی گئی ہے جبکہ اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار منفی رجحان کا شکار ہے۔
حکومت کو انتخابات کے اعلان کا مشورہ
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق زرمبادلہ کے ملکی ذخائر میں انتہائی تیزی سے کمی بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کی اہم وجہ ہے۔ عالمی مالیتاتی ادارے (آئی ایم ایف) کےساتھ قرض پروگرام کی بحالی کا معاہدہ ہوچکا ہے اس کے باوجود روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باعث اسٹاک ایکسچینج میں بھی سرمایہ کاری کرنے والوں کےاربوں روپے ڈوب چکے ہیں اور کئی سرمایہ کار دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں جبکہ تاجروں اور صنعتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر سیاسی بے یقینی برقرار رہی تو آئی ایم ایف قرض کے باوجود معیشت کو استحکام نصیب نہیں ہو پائے گا۔
پاکستانی روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی کے طوفان کی دستک
اے کے ڈی سکیورٹیز کے چئیرمین اور ممتاز تاجر عقیل کریم ڈھیڈی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں مل کر ملک کو موجودہ بحران سے نکال سکتی ہیں، عقیل کریم نے مزید کہا کہ،''ڈالر کی اونچی اڑان کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار اسٹاک میں سرمایہ کاری سے گھبرارہے ہیں، اگر حکومت فوری طور پر عام انتخابات کا اعلان کردے تو صورت حال میں بہتری آسکتی ہے۔‘‘
عقیل کریم کے مطابق مرکزی بنک کا مستقبل سربراہ ہی کرنسی کے بارے میں قیاس آرائیوں کو روک سکتا کیونکہ نجی بنکوں کو ریگولیٹ کرنا بھی مرکزی بنک کا ہی کام ہے مگر یہ کام مرکزی بنک کا عارضی سربراہ کیسے کرپائے گا۔
نجی بنک ڈالر کی قدر میں اضافے کے ذمہ دار
معروف صحافی اور دنیا نیوز کے بزنس ایڈیٹر حارث ضمیر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیاسی عدم استحکام کے ساتھ نجی بنک بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کے ذمہ دار ہیں۔روپے کے مقابلے میں ڈالر کی تاریخی پرواز تھم گئی
حارث ضمیر کہتے ہیں،''نجی بنک من مانے نرخوں پر ڈالر فراہم کررہے ہیں جس سے بنکوں کو ضرور فائدہ ہوگا مگر درآمد شدہ اشیا مہنگی ہورہی ہیں جس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے، جبکہ ایک عالمی ادارے کی ریٹنگ نے بھی غیر یقینی کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان اسٹاک ایکسچینج ایک ہزار کی مندی کے ساتھ بند ہوا ہے۔‘‘
قیاس آرائیاں معاشی عدم استحکام بڑھا رہی ہیں
معاشی تجزیہ کار شہریار بٹ کہتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت بھی مسلسل غیر مستحکم ہورہی ہے، شہریار کے مطابق ''پنجاب میں ضمنی انتخاب کے نتائج کے باعث غیر یقینی صورت حال سنگین ہوگئی ہے، ملکی فارن ریزروز تیزی سے کم ہونا خطرناک بات ہے، آئی ایم ایف سے قرض کی رقم بھی اگست تک ملے گی، جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قلت بھی بحران کی بڑی وجہ ہے، کیونکہ ایسی صورت حال میں قیاس آرائیاں اور افواہیں جنم لیتی ہیں، امریکی ریٹنگ ایجنسی کی رپورٹ میں پاکستان کی ریٹنگ مستحکم سے منفی کرنے سے بھی مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔‘‘
سوشل میڈیا اور نوجوان ووٹرز کا اہم کردار
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا یا نوجوان ووٹر کے کردار کی نفی کرنا احمقانہ بات ہوگی، مگر انہوں نے سوال کیا کہ اگر مفتاح اسماعیل کی جگہ شوکت ترین بھی وزیر خزانہ ہوتے تو کیا موجودہ صورت حال کو، ڈالر کی قدر میں اضافے کو، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سمیت مہنگائی کو روک پاتے؟‘‘