1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا نان فائلرز بل ٹیکس کے تمام مسائل کا حل ہو سکتا ہے؟

عثمان چیمہ
19 دسمبر 2024

حکومت پاکستان نے ٹیکس نان فائلرز پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے نیا بل متعارف کرایا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ صرف اس اقدام سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ حکومت کو ایف بی آر میں اصلاحات کرنی ہوں گی جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔

https://p.dw.com/p/4oNCn
 فیڈرل بورڈ آف ریونیو پاکستان
فیڈرل بورڈ آف ریونیو پاکستانتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

ماہرین کا خیال ہے کہ نان فائلرز پر گرفت مضبوط کرنا ایک اچھا قدم ہے لیکن صرف ٹیکس فائلرز کی تعداد بڑھانے سے ملک میں ٹیکس وصولی میں اضافہ ممکن نہیں۔ حکومت جو ٹیکس فائلنگ میں سالانہ اضافہ دکھاتی ہے، وہ دراصل تنخواہ دار طبقے اور ان حلقوں پر بوجھ ڈالنے کی وجہ سے ہوتا ہے جن کا ٹیکس براہ راست کٹ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں پائیدار ترقی اور ٹیکس وصولی کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں اصلاحات ضروری ہیں۔

پاکستان کا حاکم طبقہ اور ٹیکس چوری کرنے کے طریقے

محمد اظفر احسن، جو وزیر سرمایہ کاری کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، کہتے ہیں، ’’ایف بی آر تمام مسائل کی جڑ ہے اور معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت کو ایف بی آر میں اصلاحات کرنی چاہئیں اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ ان لوگوں پر مزید بوجھ ڈالا جائے جو پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں جیسے کہ تنخواہ دار طبقہ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کرنے والے اور یہاں تک کہ کارپوریٹ سیکٹر۔‘‘

پاکستان میں باہر سے لائے گئے موبائل فون پر ٹیکس، کتنا مؤثر

پاکستان میں ٹیکس نہ دینے پر دو لاکھ دس ہزار سم کارڈز بلاک

تفصیلات کے مطابق حکومت نے ٹیکس قانون ترمیمی بل 2024/25  قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے جس کا مقصد نان فائلرز پر بڑے مالی لین دین کے حوالے سے پابندیاں عائد کرنا ہے۔ نان فائلرز اب 800 سی سی سے زیادہ کی گاڑیاں، مہنگی جائیدادیں اور ایف بی آر کے مقرر کردہ حد سے زیادہ شیئرز نہیں خرید سکیں گے۔ مزید برآں، وہ عام بینک اکاؤنٹس کھولنے یا برقرار رکھنے سے بھی محروم رہیں گے اور ان کی نقد رقم نکالنے کی حد محدود ہوگی۔

اثاثوں کی تفصیلات کی شرط: ججوں اور فوجی افسران کا استثنیٰ تنقید کی زد میں

بل میں ''اہل شخص‘‘ کی نئی کیٹیگری متعارف کرائی گئی ہے جس میں ٹیکس فائلرز اور ان کے قریبی خاندان کے افراد شامل ہیں، جو اپنی اعلان شدہ دولت کے 130 فیصد تک لین دین کر سکتے ہیں۔ ایک متنازع اقدام میں، بل میں ٹیکس دہندگان کے خفیہ ڈیٹا کو کمرشل بینکوں اور پرائیویٹ آڈیٹرز کے ساتھ شیئر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس سے پرائیویسی اور عمل درآمد کے طریقہ کار پر تشویش پیدا ہو رہی ہے۔

پاکستان میں ٹیکس سے متعلق مسائل کا جڑ ایف بی آر ہے
ٹیکس فائلنگ میں سالانہ اضافہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کرنے والوں پر گرفت مضبوط کرنے کے مترادف ہےتصویر: ARIF ALI/AFP

حکومت نے جعلی سگریٹس اور مشروبات جیسے غیر قانونی طور پر تیار کردہ اشیا پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے اضافی اختیارات کی بھی درخواست کی ہے۔ اظفر احسن کہتے ہیں، ''سگریٹ مافیا پر گرفت مضبوط کرنا ایک اچھا اقدام ہے لیکن حکومت کو دیگر صنعتوں کے کارٹلز پر بھی بہتر انٹیلیجنس کے ذریعے گرفت مضبوط کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ زرعی شعبے کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔‘‘

پاکستان: 'بجٹ عوام کے لیے خطرے کی گھنٹی‘

ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ پاکستان میں موجودہ ٹیکس شارٹ فال اور نظامی ناکامیوں سے نمٹنے کے لیے مضبوط عمل درآمد کی ضرورت ہے، کیونکہ اندازے کے مطابق 11 ملین ممکنہ ٹیکس دہندگان میں سے صرف 5.6 ملین نے ٹیکس ریٹرن فائل کیا ہے۔ مزید برآں، 2022/23 کے دوران ٹیکس فائلنگ کی مدت میں تقریباً 3.4 ملین افراد نے ریٹرن فائل کیے اور ٹیکس وصولی 7163 ارب روپے رہی۔ 2023/24 میں، ایف بی آر نے 9306 ارب روپے کے ٹیکس اکٹھے کیے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے تھا، جو 36.5 فیصد زیادہ تھا۔

معروف ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق کہتے ہیں، ''حکومت ٹیکس کی شرح میں اضافہ اور سلیبس کی نظرثانی کے ذریعے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ ڈال رہی ہے۔‘‘ پاکستان میں یہ ایک بڑی بحث ہے کہ بڑے آمدنی والے افراد اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اپنی اصل آمدنی چھپاتے ہیں۔ جیسا کہ ایک ارب کی آمدنی پر35  کروڑ ٹیکس بنتا ہے لیکن پاکستان میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو اتنا ٹیکس دیتا ہو جبکہ اس سے کہیں ذیادہ کمانے والے لوگ موجود ہیں۔ 

ٹیکس میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کا اسٹالک ایکسچینج مارکٹ تیزی سے اوپر نیچے ہوتا ہے
ٹیکس میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کا اسٹالک ایکسچینج مارکٹ تیزی سے اوپر نیچے ہوتا ہےتصویر: Sabir Mazhar/AA/picture alliance

ڈاکٹر اشفاق ایف بی آر میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں، ''حکومت کو اپنی آڈٹ کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جو ایف بی آر میں ایک اہم کمی ہے۔‘‘ کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت کو نااہل حکام کو آڈٹ کا اختیار دیتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کاروباری افراد کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور انہیں بے وجہ پریشان کیا جا سکتا ہے۔

نیا پاکستانی بجٹ: جون 2025 تک 13 ٹریلین روپے آمدنی کا ہدف

اظفر احسن کہتے ہیں، ’’بہت سے لوگوں کو آڈٹ نوٹسز موصول ہوتے ہیں اور انہیں طویل عرصے تک مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے حکومتی مشن کے بھی خلاف ہے۔ ایف بی آر کرپشن کا گڑھ ہے، اسے پہلے فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔‘‘

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن انہیں نظام کے بارے میں خدشات ہیں جو کسی بھی قانون کے نفاذ کا ذمہ دار ہے۔ معروف معیشت دان شبّر زیدی کہتے ہیں ، ''نظریاتی طور پر یہ قدم درست سمت میں دکھائی دیتا ہے، لیکن نظام میں موجود صلاحیت اور کرپشن کو دیکھتے ہوئے اس میں شدید رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔‘‘

ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ''نان فائلرز‘‘ جیسی اصطلاح کسی بھی ترقی یافتہ مالیاتی نظام میں نہیں پائی جاتی۔ ڈاکٹر اشفاق کہتے ہیں، ''یہ نان فائلرز پر گرفت مضبوط کرنے کا پہلا قدم ہونا چاہیے لیکن مستقبل میں نان فائلر کے تصور کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے۔‘‘