1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا گجرات بھارتی مسلمانوں کے لیے امتیازی سلوک کا نشان ہے؟

18 دسمبر 2020

سن 2002 میں ہندو زائرین کی ٹرین میں ریاست گجرات کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر آگ لگ گئی تھی۔ اس حادثے میں درجنوں ہلاک ہوئے۔ مسلمانوں کو آگ لگانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور پھر مسلم کش فسادات میں سینکڑوں انسان مارے گئے۔

https://p.dw.com/p/3mvcE
دیو ڈیسائی کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کا تشدد اور کمیونلزم کا 'گجرات ماڈل‘ اب سارے ملک میں پھیلا دیا گیا ہےتصویر: AP

مغربی بھارتی ریاست گجرات کے تیسرے بڑے شہر وادودرا کی ایک نواحی بستی ٹانڈالیجا ہے۔ فروری سن 2002 کے المناک فسادات کے بعد بے گھر ہونے والے مسلمانوں کی دوبارہ آبادکاری کے لیے ٹانڈالیجا کو منتخب کیا گیا، اسی بستی کے ایک مسلمان  اظہر (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا تعلق ٹانڈالیجا سے ہے اور جب وہ یہ بتاتے ہیں تو سننے والے کے چہرے پر خوف نمودار ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی لوگوں اور حکام کو اب بھی ٹانڈالیجا کے مسلمانوں پر عدم اعتماد ہے اور بستی میں تناؤ ہر وقت محسوس کیا جاتا ہے۔

بھارت میں مذہبی بنیاد پر بڑھتی ہوئی معاشرتی خلیج

نسلی و مذہبی تعصب

مقامی مسلمانوں کے مطابق ٹانڈالیجا سے ایک سو دس کلو میٹر کی دوری پر واقع احمد آباد میں بھی عدم اعتماد کا یہی حال ہے اور اس شہر کے مسلمان مکینوں کو گزشتہ اٹھارہ برسوں سے مسلسل نسلی و مذہبی تعصب کا سامنا ہے۔ احمد آباد کے ایک رہائشی نیاز ہیں، انہیں ایک مقامی غیرحکومتی تنظیم نے رہنے کے لیے مکان لے کر دیا ہے کیونکہ ان کو گاؤں سے مشتعل ہندوؤں نے نکال باہر کیا تھا۔

نیاز کا کہنا ہے کہ سن 2002 سے سبھی مسلمان امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں اور مجموعی طور پر زندگی بدتر ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کے مطابق لڑکوں کو نوکریاں میسر نہیں ہیں۔ نیاز کے مطابق قریبی ہندو آبادی مسلمانوں کے گھروں کو 'پاکستان‘ کہہ کر پکارتی ہے اور اپنے علاقے کو'ہندوستان‘ کہتی ہے۔ نیاز نے یہ بھی بتایا کہ جب مودی حکومت کے شہریت بل کے خلاف احتجاج کیا گیا تو ہندو گھروں سے ان پر پتھراؤ کیا گیا تھا۔نئی دہلی کا مصطفیٰ آباد، نفرت کا شکار ہو گیا

دوسری درجے کے شہری

فروری سن 2002 کے پرتشدد واقعات کے تناظر میں ایک مقامی ڈاکٹر کا کہنا ہے  اس ریاست میں مسلمانوں نے خود کو 'دوسرے درجے کے شہری‘ کا اسٹیٹس قبول کر لیا ہے۔ اسی ریاست کے ایک اور رہائشی شجاعت ولی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وشوا ہندو پریشد (دائیں بازو کی انتہائی انتہا پسند ہندو تنظیم) اور مقامی پولیس کا آپس میں گہرا ربط ہے اور اگر کوئی مسلمان نوجوان گرفتار کر لیا جائے تو اس کی مدد کو وکیل بھی آگے بڑھنے کی جرآت نہیں کرتا۔

سعید عمر جی اس مسلمان شخص کے بیٹے ہیں، جن پر صبرامتی ایکسپریس کو آگ لگانے کا الزام لگایا گیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو جھوٹ پر مبنی واقعات کے تحت ملزم ٹھہرایا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے والد نے مسلمانوں کی جانب سے ٹرین کو آگ لگانے کے واقعے پر ہندوؤں سے معذرت کی تھی لیکن ایک ہی دن بعد انہیں گھر پر سے پولیس پکڑ کر لے گئی۔ سعید کے مطابق مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Narendra Modi Indien Ministerpräsident Gujarat
دیو ڈیسائی کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کا تشدد اور کمیونلزم کا 'گجرات ماڈل‘ اب سارے ملک میں پھیلا دیا گیا ہےتصویر: AP

تعصب کا گجرات ماڈل

مغربی ریاست گجرات بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست ہے اور وہ اس ریاست کے برسوں وزیر اعلیٰ رہے۔ فروری سن 2002 میں ٹرین کو آگ لگانے کا واقعہ بھی وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ ایک تجزیہ کار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسی ریاست میں پہلی مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے مذہبی منافرت کی فضا کو پروان چڑھاتے ہوئے مسلمانوں اور ہندوؤں میں نفرت کی خلیج پیدا کرنی شروع کی۔بھارت: سیکولر ریاست میں مذہبی تفرقے کا سیاسی استعمال

ریاست گجرات کے سماجی کارکن دیو ڈیسائی نے ڈی ڈبلیو پر واضح کیا کہ نریندر مودی کا تشدد اور کمیونلزم کا 'گجرات ماڈل‘ اب سارے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے۔

دوسری جانب بی جے پی گجرات کے میڈیا کنوینر ونود جین نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی تردید کی ہے۔ جین نے مزید بتایا کہ نریندر مودی تو گجرات کے تمام شہریوں کو اپنا خاندان قرار دیتے ہیں۔

انکیٹا (ع ح، ع ت)