کیا یورپ، لبنان میں بڑھتے تشدد کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے؟
26 ستمبر 2024یورپی یونین اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یونین کے داخلی اختلافات نے 2023 کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں اس بلاک کے سفارتی اثر ورسوخ میں رکاوٹ پیدا کی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اب فرانس اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزیپ بوریل رواں ہفتے کے اوائل میں جب لبنان میں کشیدگی میں کمی اور اسرائیل اور حزب اللہ کی دشمنی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی دیرینہ قرارداد کے احترام کا مطالبہ کر رہے تھے تو وہ واضح طور پر مایوسی کا شکار نظر آ رہے تھے۔
امریکہ اور اتحادیوں کا اسرائیل لبنان سرحد پر 21 روزہ فائر بندی کا مطالبہ
'صرف امریکہ ہی جنگ روک سکتا ہے'، لبنان
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بوریل کا کہنا تھا، ’’(اس قرارداد کو) 2006 میں منظور کیا گیا تھا۔ میرے خدا، تقریباﹰ 20 برس قبل، تقریباﹰ 20 برس قبل۔ اور میں اب بھی اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہا ہوں۔‘‘
''ہم تقریبا ایک مکمل جنگ میں ہیں۔ ہم مزید فوجی حملے دیکھ رہے ہیں، مزید نقصان ہو رہا ہے، زیادہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ لبنان میں شہری ناقابل برداشت اور ناقابل قبول قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘‘
جوزیپ بوریل نے یہ باتیں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیے میں کیں۔ اور حاشیہ ہی وہ لفظ ہے جسے قریب ایک برس سے جاری غزہ تنازعے میں یورپی یونین کے کردار کا احاطہ کرتا ہے۔
اب یہ بلاک تناؤ کو کم کرنے کے لیے نئی کوششیں کر رہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے لبنان کے بڑے حصے میں حزب اللہ کے خلاف حملوں میں اضافے غزہ میں عسکریت پسند گروپ پر جاری حملوں کے تناظر میں یورپ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کیا یورپی یونین اسرائیل پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟
کاغذی طور پر تو یورپی یونین کا اسرائیلی حکومت پر کچھ اثر و رسوخ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ اس بلاک کے تجارتی شراکت داروں کی فہرست میں اسرائیل 25 ویں نمبر پر ہے، لیکن اسرائیل کے لیے یورپی یونین اس حوالے سے پہلے نمبر پر ہے۔ یورپی کمیشن کے مطابق 2022ء میں، اسرائیل کی درآمدات کا 31.9 فیصد یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے آیا تھا اور ملک کی برآمدات کا ایک چوتھائی سے زیادہ اسی بلاک کو بھیجا گیا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں فسلطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے اسرائیل کے اندر دہشت گردانہ حملے کے بعد غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے ناقدین نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اسرائیل کے خلاف پابندیوں پر غور کرتے ہوئے اس ممکنہ فائدے کو استعمال کرے۔
اگرچہ پرتشدد اسرائیلی آباد کاروں پر محدود پابندیوں کے علاوہ کچھ بھی مذاکرات کی میز سے باہر نظر آتا ہے لیکن بلاک نے مئی میں اسرائیل کے ساتھ بات چیت کرنے پر اتفاق کیا تھا تاکہ یورپی یونین کے ساتھ تجارت سے متعلق معاہدے میں انسانی حقوق کی شقوں کی تعمیل کے بارے میں جواب طلب کیا جا سکے۔
لیکن زمینی سطح پر، اس درخواست سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اب جبکہ اسرائیل اور حزب اللہ یورپی یونین اور دیگر ممالک کی جانب سے لبنان میں کشیدگی کم کرنے کے تازہ مطالبے کو نظر انداز کرتے دکھائی دے رہے ہیں، ممکنہ ردعمل پر بحث ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے۔
یہاں کسی بھی سمت میں مزید کام کرنے کی یورپی یونین کی صلاحیت کو روکنے والا اہم عنصر خود یورپی یونین ہے۔ خارجہ پالیسی کے فیصلوں کے لیے بلاک کے 27 ممالک کی متفقہ حمایت درکار ہوتی ہے اور تقریباﹰ ایک سال گزرنے کے بعد بھی رکن ممالک مشرق وسطیٰ کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کے معاملے پر بہت منقسم ہیں۔
کیا واشنگٹن کا سفارتی اثر و رسوخ کام کرے گا؟
پیرس میں انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹجک افیئرز کے کریم بِیطار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یورپ درحقیقت محض ایک ناتواں تماشائی بن کر رہ گیا ہے۔‘‘
بیروت کی سینٹ جوزف یونیورسٹی کے پروفیسر بِیطار نے کہا کہ اگرچہ مشرق وسطیٰ کے بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ یورپ ایک اہم کردار ادا کرے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ بالآخر یورپی تقسیم ہو چکے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر امریکہ کی رہنمائی کی پیروی کریں گے۔
منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ 'سفارتی حل‘ اب بھی موجود ہے اور یہ کہ امریکہ شمالی اسرائیل اور جنوبی لبنان کے باشندوں کی وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے 'انتھک کوشش‘ کر رہا ہے۔
ان کی انتظامیہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی اب تک کی ناکام کوششوں میں بھی شریک رہی ہے۔
بیطار کے بقول، ''ہم (امریکی) صدارتی انتخابات کے بعد تک بہت کم تبدیلی کی توقع کر سکتے ہیں۔‘‘
حزب اللہ، صرف تہران کے احکامات کی تابع؟
جب حزب اللہ کو راستہ تبدیل کرنے پر قائل کرنے کی بات آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یورپی یونین کو کامیابی کی امید اور بھی کم ہے۔ ایران کے حمایت یافتہ اس مسلح گروپ کے عسکریت پسند ونگ کو یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی کیلی پیٹیلو کے بقول تہران واحد کردار ہے جو حزب اللہ پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہاں تک کہ ایران کو بھی حزب اللہ پر مکمل برتری حاصل نہیں ہے: ''غزہ میں حماس کے مقابلے میں حزب اللہ کے پاس زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ لہٰذا اسرائیل اور حزب اللہ کے محاذ کے معاملے میں ایک خوفناک منظر نامے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔‘‘
یورپی یونین اور ایران کے درمیان تعلقات میں تاریخی تنزلی، اور یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں روس کی مبینہ فوجی حمایت پر برسلز نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کیے جانے اور تہران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نئے الزامات کے باوجود یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزیپ بوریل نے نیو یارک میں اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کی۔
فرانس، امید کی ایک ممکنہ کرن؟
یورپی یونین کے کسی ایک ملک کو اگر لبنان میں اثر و رسوخ رکھنے والے ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو وہ ہے سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس۔
ہزاروں لبنانی شہری فرانسیسی پاسپورٹ بھی رکھتے ہیں، سینکڑوں فرانسیسی فوجی لبنان میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے رواں سال کے اوائل میں خبر دی تھی کہ پیرس نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے لیے تجاویز تیار کی ہیں۔
پیٹیلو کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ کوشش ناکام ہو گئی ہے لیکن حال ہی میں فرانس کی جانب سے کی جانے والی کوششوں میں تیزی آئی ہے کیونکہ یہ ملک اپنے داخلی سیاسی بحران سے نکل رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے اسرائیل اور حزب اللہ کے حملوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے لیے اب سب سے بڑا خطرہ لبنان میں کشیدگی ہے۔
فرانسیسی سفارت کار ژاں ایو لے دریاں بیروت میں ہیں اور ماکروں نے منگل کو اقوام متحدہ میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کی۔ ان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ماکروں نے ''کشیدگی میں عمومی کمی کی حمایت کرنے اور عدم استحکام پیدا کرنے والے عناصر پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی ایران کی ذمہ داری پر زور دیا۔‘‘
زیادہ تر مغربی طاقتوں کے برعکس فرانس نے بھی حزب اللہ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
محقق کریم بیطار نے وضاحت کی، ''حزب اللہ کے ساتھ روابط کے ذرائع اور لبنان کی صورتحال سے واقف ہونے کی وجہ سے فرانسیسیوں کا اب بھی لبنان میں کافی اثر و رسوخ ہے۔‘‘
بیطار نے کہا کہ فرانس آگے بڑھنے کے لیے 'کسی حد تک لیکن اہم کردار‘ ادا کر سکتا ہے، لیکن وہ اکیلا اس کام کے لیے کافی نہیں۔ بیطار کا خیال ہے کہ کشیدگی میں کمی کے لیے فرانس کی کسی بھی تجویز کو کامیاب ہونے کے لیے امریکی حمایت کی ضرورت ہو گی۔
روزی برچرڈ (ا ب ا/ع ب/ ع ا)