کیری لوگر بل پر پاکستانی فوج کے تحفظات
8 اکتوبر 2009پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ کیری لوگر بل کے بعض نکات پاکستان کی قومی سلامتی سے متصادم ہیں۔ فوج کے ایک اعلامیے کے مطابق حکومت کو اس حوالے سے پائے جانے والے خدشات سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔
بدھ کو روالپنڈی میں کورکمانڈرز کی 122ویں کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں دیگر اُمور کے ساتھ ساتھ کیری لوگر بل پر بھی غور کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک خودمختار مملکت ہے اور اسے اپنے قومی مفاد کے تناظر میں درپیش خطرات کا جائزہ لینے اور ان سے نمٹنے کا پورا حق حاصل ہے۔
جنرل کیانی نے کہا کہ پاکستان عالمی امن کے لئے سنجیدہ ہے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ فوج کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوام کی رائے کی نمائندگی پارلیمان کو کرنا ہے۔
بدھ کو ہی پاکستانی پارلیمان میں بھی کیری لوگر بل پر بحث ہوئی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس حوالے سے فوج سمیت تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا عندیہ دیا۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا، 'پارلیمان اور فوج کو اس بل پر کوئی تحفظات ہیں تو حکومت انہیں دور کرے گی۔ ساتھ ہی اس مسئلے پر قومی سطح پر مفاہمت کی راہ ہموار کی جائے گی۔'
وزیر اعظم نے کہا کہ امریکی حکومت پاکستان میں پائے جانے والے اعتراضات سے آگاہ ہے۔
دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتیں بھی سات ارب ڈالر سے زائد کی نئی امریکی امداد پر شدید تنقید کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مدد کے ساتھ بہت سی شرائط جڑی ہیں، جن میں پاکستانی کے جوہری پروگرام کو محدود کرنا بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی انتہاپسندوں سے تنہا لڑائی کے لئے پاکستان پر دباؤ بھی بڑھایا جا رہا ہے۔
اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ اس بل نے پاکستان اور اس کے عوام کو ایک امتحان میں ڈال دیا ہے۔ مرکزی اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے ترجمان صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ یہ بل قومی مفادات کے منافی ہے اور پاکستان میں یہ تاثر عام ہے۔
امریکی کانگریس نے گزشتہ ہفتے اس بل کی منظوری دی تھی، جس کے تحت آئندہ پانچ سال تک پاکستان کی امداد تین گنا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ امداد پاکستان میں اسکولوں اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ جمہوری اداروں کے قیام کے لئے دی جا رہی ہے، جس کا مقصد طالبان کی انتہاپسندی کا مقابلہ کرنا ہے۔ تاہم پاکستانی پارلیمان کی جانب سے اس بل پر اتفاق ضروری ہے۔
اُدھر واشنگٹن حکومت نے تردید کی ہے کہ یہ امدادی پیکیج اسلام آباد کی خودمختاری کے خلاف ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان آئیان کیلی کا کہنا ہے کہ امداد کی نگرانی کا طریقہ کار امریکی ٹیکس دہندگان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔