تشدد سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اسٹریٹیجی
7 دسمبر 2021کچھ ناقدین نے حکومت کے اس ارادے کو سراہا ہے تو کچھ کے خیال میں نئی اسٹریٹیجی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مروجہ قوانین کو سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں، جس کی صدارت وزیر اعظم نے کی اور جس میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے شرکت کی، یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس طرح کے تشدد سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اسٹریٹیجی بنائی جائے گی۔ تاہم پیرکے روز ہونے والے اس اجلاس کے حوالے سے وزیر اعظم ہاؤس نے جو پریس ریلیز جاری کی اس میں اس اسٹریٹیجی کے خدوخال بیان نہیں کیے گئے۔
ہجوم کے تشدد کی تاریخ
واضح رہے کہ پاکستان میں ہجوم کی طرف سے پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کچھ برسوں پہلے مردان کی ایک یونیورسٹی میں ایک طالبعلم مشعل خان کو توہین رسالت کے الزام میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح قصور میں ایک عیسائی جوڑے کوبھی توہین رسالت کے الزام میں ایک مشتعل ہجوم نے زندہ جلا دیا تھا۔ کئی برس پہلے گوجرانوالہ میں بھی اسی طرح کا واقعہ رونما ہوا تھا جہاں ایک احمدی آبادی پر مسلح حملہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ گوجرہ اور جوزف کالونی لاہور کے واقعات بھی ملک کے لیے شرمندگی کا باعث بنے جہاں پر عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں پر حملے کیے گئے۔ اس مشتعل ہجوم میں نہ صرف مذہبی جماعتوں کے کارکنان نے حصہ لیا بلکہ کچھ تشدد کی ایسی کارروائیوں میں سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں نے بھی حصہ لیا۔ مثال کے طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ جوزف کالونی کے واقعہ میں مسلم لیگ نون کے کچھ مقامی رہنما مشتعل ہجوم کے ساتھ تھے جبکہ مشعل خان والے واقعہ میں تحریک انصاف اورعوامی نیشنل پارٹی کے کچھ کارکنان بھی اس مشتعل ہجوم کا حصہ تھے جس نے مشعل خان پر تشدد کیا۔
توہین مذہب سے متعلق میری حکمت عملی کامیاب ہو گی، عمران خان
مروجہ قوانین پر عمل کریں
سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت مروجہ قوانین کو سختی سے نافذ نہیں کرتی اور ہر مرتبہ نئی اسٹریٹیجی بنا لی جاتی ہے۔ سکیورٹی امور کے ماہر اورسابق انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ افضل علی شگری کا کہنا ہے کہ قانون کی کتابوں میں پہلے ہی ایسا طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت ہجوم کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،
'' پاکستان کی پولیس 1961ء کے قانون کے بعد معرض وجود میں آئی جس وقت برطانوی پولیس کی تربیت ہو رہی تھی۔ کم و بیش اسی وقت پاکستانی پولیس کی بھی تربیت ہو رہی تھی ہماری پولیس کے پاس وہ تمام طریقہ موجود ہے۔ ضلعی سطح پر جو پولیس کی قیادت ہے اس کے پاس پورا یہ اختیار ہے کہ اگر کوئی امن و امان میں خلل ڈالے، پولیس پر حملہ کرے، کسی کی جان لینے کی کوشش کرے، سرکاری یا نجی جائیداد پرحملہ کرے، تو پولیس اس کے خلاف طاقت استعمال کر سکتی ہے اور اگر وہ پولیس کی راہ میں رکاوٹ بنے تو پولیس اپنے دفاع میں اس پر گولی بھی چلا سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا،'' سیالکوٹ کے واقعے میں اگر پولیس وہاں پر پہنچ گئی ہوتی اور پولیس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مینیجر کی زندگی خطرے میں ہے تو پولیس کو پورا اختیار تھا کہ وہ اس مجمع کے خلاف طاقت استعمال کرتی۔‘‘
پاکستان میں توہین مذہب کا مسئلہ اور یورپی پارلیمان کی قرارداد
لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال
انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں اب یہ روایت بن گئی ہے کہ کسی پر توہین رسالت کا الزام لگایا جاتا ہے اور کوئی مذہبی پیشوا مسجد سے اشتعال انگیز تقریر اور اعلانات شروع کر دیتا ہے اور اور مبینہ ملزم کے گھر کا گھیراؤ کر لیا جاتا ہے اور اس کے بعد مشتعل ہجوم اس کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح عدالت میں ایسے مقدمات کی سماعت کے موقع پر بھی مذہبی جماعت کے کارکنان جمع ہو جاتے ہیں اور وہ عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ رکن پنجاب اسمبلی اور پی ٹی آئی کی رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی چیزوں کی روک تھام ہونی چاہیے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف مذہبی مقاصد کے لیے ہونا چاہیے یہ نماز کے لیے ہونا چاہیے اور مسجد سے اس طرح کے اعلانات نہیں ہونے چاہییں جس سے لوگ تشدد پر آمادہ ہو جائیں۔
بالکل اسی طرح عدالت کے باہر ہجوم کو جمع نہیں ہونا چاہیے اور اس کے باہرپولیس لگنی چاہیے تاکہ کوئی بھی ہجوم جمع ہو کر عدالت کی کارروائی پراثرانداز نہ ہو۔‘‘
پاکستان میں عدالتی فیصلے ’ثبوت و شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہوا کا رخ‘ دیکھتے ہوئے
حساسیت بیدار کرنے کی ضرورت
مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان میں پہلے ہی بہت سارے اقدامات ہیں جن پر عمل درآمد کر کے اس طرح کے تشدد کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں،'' ہمارے معاشرے میں مشکل یہ ہے کہ اس مسئلے پر بات کرنا بھی بہت دشوارہے۔ تو حکومت علماء کی مدد سے لوگوں میں حساسیت پیدا کرنا چاہتی ہے اور لوگوں کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اگر کہیں قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے توایکشن لینے کا حق صرف اور صرف ریاست کو ہے۔ کسی مذہبی رہنما یا مذہبی جماعت کے کارکن کو نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،'' حکومت بڑے پیمانے پر لوگوں میں حساسیت بیدار کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اسٹریٹیجی بنائی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی قانون کو ہاتھ میں لے گا اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔‘‘
عبدالستار/ اسلام آباد