سادھوؤں کا تاج محل کے اندر دھرم سنسد کرنے کا اعلان
4 مئی 2022بھارت میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جس سادھو نے بھارت کو ’ہندو راشٹر‘ قرار دینے کے لیے تاج محل کے اندر 'دھرم سنسد‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا انہیں عید، یعنی منگل کے روز، تاج محل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ تاہم حکام نے واضح کیا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سادھو کو راستے میں ہی روک دیا گیا اور انہیں شہر کے مضافات میں ایک غیر معلوم مقام پر لے جایا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے ایک مقامی پولیس اہلکار کے حوالے سے لکھا، "ہم نے انہیں حراست میں نہیں لیا ہے۔ ہم نے انہیں تاج محل کی طرف بڑھنے سے روکا کیونکہ انہوں نے وہاں مذہبی سرگرمیاں منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔"
تاج محل میں دھرم سنسد کا مقصد کیا ہے؟
اسی ہفتے ایودھیا سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو مذہبی شخصیت جگدگرو پرم ہنس چاریہ کا ایک ویڈیو وائرل ہو گیا تھا، جس میں انہوں نے اپنے پیروکاروں سے پانچ مئی کی صبح 10 بجے تاج محل کے مغربی دروازے پر بھگوان شیو کی پوچا کے لیے جمع ہونے کی اپیل کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ تاج محل 'تیجو مہالیہ' کے نام سے ایک شیو مندر تھا، جس پر مغلوں نے جھوٹا دعویٰ کر کے اسے تاج محل کے طور پر پیش کیا۔ بھارت کے قوم پرست اور سخت گیر ہندو، لال قلعہ، جامع مسجد اور مغلوں کی بہت سی دیگر تعمیر کردہ تاریخی عمارتوں کو، قدیم ہندوؤں کی املاک بتا کر، ان پر اپنا دعوی کرتے ہیں۔
اس سے قبل مذکرہ سادھو نے یہ دعوی کیا تھا کہ چونکہ انہوں نے گیرواں رنگ کا لباس پہن رکھا تھا اس لیے انہیں تاج محل کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اس پر جب احتجاج ہوا، تو حکام نے، "مجھ سے معذرت کرتے ہوئے تاج محل کا دوبارہ دورہ کرنے کی دعوت دی۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب، "میں پانچ مئی کو تاج محل پہنچ کر، وہاں شیو کی مورتی نصب کروں گا اور سناتن دھرم کی سنسد کے دوران بھارت کو 'ہندو راشٹر‘ قرار دیا جائے گا۔" ان کا دعوی تھا، ''تمام سرگرمیاں آئین کے دائرہ کار میں ہوں گی۔‘‘
بھارت کا آئین ایک سیکولر جمہوریت ہونے کا دعوی کرتا ہے، تاہم قوم پرست حکمراں جماعت بی جے پی کی سخت گیر موقف رکھنے والی مربی ہندو تنظیم آر ایس ایس بھارت کو ایک ہندو ملک بنانے کی تحریک چلاتی رہی ہے اور بی جے پی بھی اس کی حمایت کرتی ہے۔
ادھر آگرہ میں محکمہ آثار قدیمہ کے ایک سینیئر افسر راج کمار پٹیل نے سادھو کے وائرل ہونے والی ویڈیو میں کیے گئے دعوؤں کی نفی کی ہے اور واضح کیا کہ سادھو کو تاج محل میں داخل ہونے سے اس لیے نہیں روکا گیا تھا کہ انہوں نے زعفرانی رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔
پٹیل نے بتایا کہ سادھو کو دوبارہ تاج محل کا دورہ کرنے کے لیے اس لیے کہا گیا، تاکہ اگر ان کے ساتھ کوئی تفریق برتی گئی ہو، تو اس کا ازالہ کیا جا سکے۔
ہندو قوم پرستوں کے دعوے
بھارت میں سن 2014 میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارتی تاریخ کو مسخ کرنے کی رفتار تیز ہوئی ہے اور ملک کے بہت سے تاریخی شہروں کے نام تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں آئے دن یہ مطالبات ہوتے رہتے ہیں کہ اکبر روڈ، ہمایوں یا مغلوں کے نام پر دیگر شاہ راہوں کے نام بھی تبدیل کیے جائیں۔ ہندو تنظیمیں مسلم حکمرانوں کو حملہ آور بتا کر انہیں ہندوؤں کا دشمن ثابت کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہیں۔
اب بہت سے اسکولوں میں تاریخ کے نصاب میں یہ تبدیلی بھی کی جا چکی ہے کہ ہلدی گھٹی کی تاریخی جنگ میں مغل شہنشاہ اکبر نے مہا رانا پرتاپ کو نہیں بلکہ پرتاپ نے اکبر کو شکست دی تھی۔ اس سے پہلے تک یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ مغل شہنشاہ اکبر نے اسی فتح کے بعد ایک عظیم ہندوستان کی بنیاد ڈالی تھی۔
حال ہی میں حکومت نے سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں کے قومی سطح کے، سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن' (سی بی ایس ای) کے دسویں جماعت کی نصاب سے فیض احمد فیض کے اشعار کو بھی حذف کر دیا ہے۔
سی بی ایس ای کی دسویں جماعت کے لیے حکومتی ادارہ این سی ای آر ٹی کی طرف سے شائع کردہ سماجیات کی نصابی کتاب میں ''مذہب، فرقہ پرستی اور سیاست‘‘ کے عنوان کے تحت مضمون میں فیض احمد فیض کی دو نظموں کے اشعار اور ان کے انگریزی ترجمے شامل تھے۔ طلبہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ مضمون پڑھ رہے تھے۔ لیکن نئے تعلیمی نصاب میں ان کو شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔