ہیٹی میں ہیضے سے 250 سے زیادہ اموات
25 اکتوبر 2010امریکی ٹی وی چینل نے یہ اعداد و شمار ہیٹی کی وزارتِ صحت کے حوالے سے جاری کئے ہیں۔ گزرے دو دنوں کے دوران یہ وبا ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرانس تک بھی پہنچ گئی۔ تاہم دارالحکومت میں ہیضے کے جو پانچ کیسز درج ہوئے ہیں، وہ اُن شہریوں کے ہیں، جو پورٹ او پرانس سے شمال کی طرف واقع علاقے ڈیپارٹ مَوں آرٹی بونِیٹ کے وبا زَدہ علاقے میں اِس وائرس سے متاثر ہوئے۔
سی این این نے اقوام متحدہ کے انسانی بھلائی کی سرگرمیوں کی رابطہ کاری کے فرائض سرانجام دینے والے دفتر کی ترجمان اِموجن وال کے حوالے سے بتایا کہ اگرچہ صورتِ حال تشویشناک ہے لیکن دارالحکومت کو ابھی غالباً محفوظ کہا جا سکتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ حکام نے تیز رفتاری کے ساتھ اِس وبا پر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے اور متاثرہ افراد کو صحت مند شہریوں سے الگ تھلگ کرنے کے بعد اُن کا علاج کیا جا رہا ہے۔
پورٹ او پرانس میں حفظانِ صحت کی سہولتیں بہتر بنانے اور متاثرہ افراد کے لئے قرنطینہ زون قائم کرنے کا کام جاری ہے۔ تاہم وال کا کہنا تھا کہ طبی عملے کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
دُنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہونے والے ہیٹی کے دارالحکومت میں تقریباً تین ملین انسان بستے ہیں۔ یہاں شہریوں کی ایک بڑی تعداد اِس سال بارہ جنوری کو آنے والے اُس زلزلے کے بعد سے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے، جس میں دارالحکومت اور اُس کے نواح میں واقع علاقوں میں دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ انسان ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کیمپوں میں حفظانِ صحت کی ناکافی سہولتوں کے باعث مختلف طرح کی وبائیں پھوٹ پڑنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
دست، بخار اور قَے آنا ہیضے کی واضح علامات ہیں۔ زیادہ تر لوگ پینے کے اُس پانی کے ذریعے اِس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، جس میں فضلہ ملا ہوتا ہے یا پھر اُنہیں ایسی اَشیائے خوراک کے باعث یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے، جنہیں اچھی طرح سے صاف نہیں کیا گیا ہوتا۔ مناسب علاج نہ ہونے پر مریض کے جسم میں پانی کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے اور وہ چند گھنٹوں کے اندر اندر موت کا شکار ہو سکتا ہے۔
ملکی دارالحکومت میں ہیٹی کے بے گھر شہریوں کے لئے قائم کیمپوں میں تقریباً 1.5 ملین بے گھر رہ رہے ہیں تاہم ابھی اِن کیمپوں تک ہیضے کی وبا نہیں پہنچی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ہیضے کے نئے کیسز کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے اور صورتِ حال رفتہ رفتہ قابو میں آتی دکھائی دیتی ہے۔
ہیٹی کے صدر رینے پریوال اور وزیر صحت آلیکس لارسن نے ہفتے کے روز اِس وبا سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ اِس موقع پر حکام کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ گزشتہ جمعے کو وزارتِ صحت نے ملک میں سرگرم بین الاقوامی ادارے اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی کہ وہ غیر ملکی حکومتوں اور اداروں کی طرف سے بھیجی جانے والی اَدویات کی تقسیم کی ذمہ داریاں سنبھال لے۔
’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نامی تنظیم ہیضے میں مبتلا افراد کے علاج معالجے کے لئے سینٹ مارک کے مقام پر ایک فیلڈ ہسپتال قائم کر رہی ہے جبکہ آکسفیم نے پانچ ایمرجنسی ماہرین آرٹی بونِیٹ روانہ کئے ہیں تاکہ وہ وہاں ایک لاکھ افراد کے لئے پانی، حفظانِ صحت اور صفائی کی سہولتیں فراہم کر سکیں۔ آکسفیم نے ہیٹی کے پچیس ہزار شہریوں میں صابن، پانی صاف کرنے کی گولیاں اور پانی کی کمی کو دور کرنے والے نمکیات کے پیکٹ تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کینیڈا نے، جہاں ہیٹی سے جا کر بس جانے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ایک ملین ڈالر کی امداد کے ساتھ ساتھ ایک فوجی ہسپتال بھیجنے کی بھی پیشکش کی ہے جبکہ امریکہ نے مریضوں کے علاج کے لئے بڑے بڑے خیمے نصب کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ریڈ کراس کی امریکی شاخ کے مطابق تین بحری جہاز امدادی ساز و سامان لے کر ہیٹی پہنچ بھی چکے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک