ہیٹی میں مبینہ ہیضے کے نتیجے میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری
22 اکتوبر 2010رواں سال 12 جنوری کو ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے بعد جہاں ملک کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچے وہاں ملک کا صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہیٹی کے ادرا رہ برائے صحت نے عالمی ادارہ صحت کو بتایا ہے کہ ہیٹی کے دارالحکومت کے شمال میں واقع زیریں علاقے Artibonite میں اب تک مبینہ طور پر ہیضے سے 1,526افراد متاثر اور 138ہلاک ہوچکے ہیں۔
ہیٹی کے سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس مرض سے متاثرہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتالوں میں موجود ہے۔جنوری میں ہیٹی میں آنے والے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لئے ہیلتھ ٹیموں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
البتہ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت متاثرہ افراد کے خون ٹیسٹ کی رپورٹوں کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد یہ واضع ہو سکےگا کہ یہ ہیضے کی وبا ہی ہے ۔
ہیٹی کے صحت کے ادارے کے ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر گیبریل اور وزیر صحت الیکس لارسن کے مطابق ابتدائی معائنوں سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ہیٹی میں ہیضے کی وبا ہی پھیل گئی ہے تاہم اس ملک میں اس خطرناک بیماری کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔
ڈاکٹر گیبریل کے مطابق متاثرہ افراد ہر عمر سے تعلق رکھتے ہیں مگر زیادہ تر متاثرین نوجوان اور بزرگ شہری ہیں۔
رواں سال کے ابتدا میں آنے والے زلزلے کے بعد حکام کوخطرہ تھا کہ ہیٹی میں وبائی امراض پھوٹ پڑیں گے مگر عالمی ادارہ صحت کے اقدامات نے اس خطرے کو ٹال دیا۔
ابھی تک ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ اؤ پرانس میں اس مبینہ ہیضے کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔
ہیضے کی بیماری گندے پانی کے ذریع پھیلتی ہے اور اگر اس کا بر وقت علاج نہ ہو تو مریض کی جان بھی جاسکتی ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ 80 فیصد تک ہیضے کے مریضوں کو منہ کے ذریع نمکیات دے کر بچایا جاسکتا ہے اور صاف پانی کی فراہمی ہیضے اور پانی کے ذریع پھیلنے والی بیماریوں کی روک تھام کے لئے ضروری ہے۔
رپورٹ: سمن جعفری
ادارت: کشور مصطفیٰ