یمن میں مظاہروں میں شدت، صدر صالح نے مذاکرات کی دعوت دے دی
16 اپریل 2011صدر علی عبداللہ صالح نے دارالحکومت صنعا میں ہزاروں حامیوں کے اجتماع سے خطاب کے دوران اپوزیشن جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ امن مذاکرات کا حصہ بنیں۔
’’ہم اپوزیشن سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آپس میں صلاح مشورے کے بعد مشترکہ طور پر مذاکرات میں شامل ہو تاکہ کسی ایسے معاہدے پر پہنچا جا سکے، جو ملک کی سلامتی اور استحکام کا باعث بنے۔‘‘
اس خوف کے باعث کے یمن کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں وہاں القاعدہ اپنا نیٹ ورک مضبوط بنا سکتی ہے، خلیج فارس کے متعدد ممالک کی طرف سے یمن کو امداد اور ثالثی کی پیشکش کی گئی ہے، تاہم حکومت مخالف جماعتوں نے عرب ممالک کی طرف سے کی گئی اس پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ اپوزیشن کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر سعودی عرب کو ملکی صورتحال میں معاونت کے لیے آگے بڑھنے کا کہا گیا، تو وہ اپنے دیرینہ دوست علی صالح کے دور اقتدار کو ختم ہونے سے بچا لے گا۔ واضح رہے کہ یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی مدت صدارت سن 2013ء میں ختم ہونا ہے، تاہم اپوزیشن ان سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اپنے حامیوں سے خطاب میں صدر صالح نے خبردار کیا کہ اگر ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں مکمل ہونے سے قبل انہیں زبردستی اقتدار سے الگ کیا گیا، تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
اس سے قبل صدر صالح نے ملک میں رواں برس نئے انتخابات کی تجویز پیش کی تھی، تاہم صالح کا مؤقف ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد تک اقتدار ہی میں رہیں گے، تاکہ سیاسی اصلاحات کے عمل کی نگرانی کے ساتھ ساتھ اقتدار کی ’محفوظ ہاتھوں‘ میں منتقلی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : افسر اعوان