یمن: نئی کابینہ کے ایر پورٹ پہنچتے ہی دھماکے، 26 افراد ہلاک
31 دسمبر 2020مقامی حکام کے مطابق بدھ کے روز ہونے والے اس حملے میں گوکہ نئی حکومت کے تمام وزراء محفوظ رہے تاہم 50 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس حملے کے کچھ ہی دیر بعد صدارتی محل کے قریب بھی ایک دھماکہ ہوا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نئی تشکیل شدہ اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کے اراکین کو سعودی عرب سے لے کرآنے والا طیارہ ہوائی اڈے پر اترا۔
عینی شاہدین کے مطابق طیارے کے لینڈنگ کرتے ہی دھماکوں کی زور دار آوازیں اور پھر بندوق کی گولیوں کی آوازیں سنائی دیں۔
مقامی سکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ مورٹار کے تین گولے ایئرپورٹ کے ہال میں آکر گرے۔ طیارے پر سوار یمن کے وزیر مواصلات نجیب الاوج نے ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ انہوں نے دھماکوں کی دوآوازیں سنیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ ڈرون حملہ تھا۔
پہلے دھماکے کے بعد ہر طرف دھویں کے بادل پھیل گئے اور جب لوگ اور امدادی رضاکار ہلاک اور زخمیوں کی مدد کے لیے پہنچے تو دوسرا دھماکہ ہوگیا۔
اے پی کے مطابق ہوائی اڈے پر ہونے والے دھماکے کے وقت کی فوٹیج میں حکومتی وفد اور نئی کابینہ کے ارکان کو پریشانی کی حالت میں طیارے سے اترتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ دھماکے کی زوردار آواز سے گھبرا کر بہت سے وزرا واپس طیارے کے اندر بھاگے، جب کہ کچھ پناہ کی تلاش میں سیڑھیوں سے چھلانگیں لگاتے ہوئے دکھائی دیے۔
ٹرمینل کی عمارت کے قریب سے دھویں کے گھنے بادل اٹھتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ جائے وقوع پر موجود عہدیداروں نے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے ہوائی اڈے کے اندر زمین پر اور دوسری جگہوں پر لاشیں پڑی دیکھیں۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے ایک بیان میں اپنے ایک ملازم کے ہلاک جبکہ تین کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔
آئی سی آر سی کے آپریشنز ڈائریکٹر ڈومنک سٹل ہارٹ نے کہا ”یمنی عوام کوپچھلے پانچ برسوں کے دوران بے پناہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آج کے واقعے نے ان کے مصائب میں مزید اضافہ کردیا ہے۔"
چند گھنٹے بعد ہی صدارتی محل مشرق پیلیس کے قریب ایک دوسرا دھماکہ ہوا، جہاں پہلے دھماکے کے بعد وزیر اعظم معین عبدالملک سعید، نئی کابینہ کے اراکین اور سعودی سفیر محمد سعید الجابر کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب کی قیادت والے اتحاد کا کہنا ہے کہ 'ایک حوثی ڈرون نے صدارتی محل المشرق پیلیس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی...اسے مار گرایا گیا۔"
دوسرے واقعے میں کسی کے ہلاک ہونے کی فوری طورپر کوئی اطلاع نہیں ہے۔
بزدلانہ حملہ
یمنی وزیر اعظم معین عبدالملک سعید نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا”ہم اور حکومت کے اراکین عارضی دارالحکومت عدن میں ہیں اور سب بخیر ہیں۔" انہوں نے مزید لکھا کہ”اگر طیارے پر بم گرتا تو بہت بڑی تباہی مچ جاتی۔" ان کا تاہم کہنا تھا کہ حملے کا نشانہ دراصل طیارہ ہی تھا کیوں کہ اسے طے شدہ شیڈول کے مطابق ذرا پہلے اترنا تھا۔
یمنی وزیر اعظم نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ”عدن ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا بزدلانہ دہشت گردی اور یمن اور اس کے عظیم عوام کے خلاف عائد کردہ جنگ کا حصہ ہے۔ لیکن عدن میں حکومت ہے اور رہے گی اور عوام کی مدد سے اپنا مشن جاری رکھے گی۔"
عالمی مذمت
اقو ام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے اس 'شرمناک حملے‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی ادارہ یمن میں تصادم کا بات چیت کے ذریعہ حل تلاش کرنے کے اپنے عہد پر قائم ہے۔
یمن کے لیے اقو ام متحدہ کے سفیر مارٹن گریفتھس نے ٹوئٹر پر کہا”یہ ناقابل قبول ہے۔ دہشت گردی کا یہ افسوس ناک واقعہ ہمیں یمن کو جلد از جلد امن کے راستے پر لانے کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت کی یاد دہانی کراتا ہے۔"
یمن میں سعودی سفیر محمد الجابر نے کہا کہ 'یمنی حکومت کو نشانہ بنانا ایک بزدلانہ دہشت گردی ہے۔‘ متحدہ عرب امارات نے اسے سکیورٹی اور استحکام کے امکانات کو تباہ کرنے کی ایک 'ناپاک کوشش‘ قرار دیا۔
یمن میں کیا ہورہا ہے؟
یمن کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت اور جنوبی حصے کے علیحدگی پسندوں نے 18دسمبر کو ایک نئی مشترک کابینہ تشکیل دی تھی۔ سعودی عرب میں نئی وزارت کی حلف برداری کے بعد یہ عدن واپس لوٹے تھے۔
عدن کے جنوبی حصے سے کام کرنے والی صدر عبد الربہ منصور ہادی کی حکومت اور علیحدگی پسند، سعودی عرب کی قیادت والی اتحاد کے حلیف ہیں۔
سن 2014 میں حوثیوں کے شمالی دارالحکومت صنعا پر قبضے کے بعد سے ہی یہ اتحاد ایران سے وابستگی رکھنے والے حوثیوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔
لیکن علیحدگی پسند جنوبی عارضی کونسل (ایس ٹی سی) نے اس سال عدن میں خود مختاری کا اعلان کردیا۔ جس کے بعد سے ہی دونوں فریق جنوب میں جنگ لڑ رہے ہیں اور تصادم کی اس مجموعی صورت حال کی وجہ سے مستقل جنگ بندی کی کوششیں کافی پیچیدہ ہوگئی ہیں۔
24رکنی نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد صدر ہادی نے سنیچر کے روز انہیں حلف دلایا تھا، جس کے بعد ایرانی حمایت یافتہ جنگجووں کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم ہوگیا ہے۔
اس تباہ کن حملے کی کسی گروپ نے فوری طور پر ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ لیکن یمن کے وزیر اطلاعات معمر الاریانی نے ان دھماکوں کا الزام حوثی باغیوں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ''ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے دہشت گرد حملے ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی سے پیچھے نہیں ہٹا سکتے۔"
حکومتی ترجمان راجح بدیع نے ان حملوں کی بین الاقوامی تفتیش کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان حملوں کی کسی تفتیش کے بغیر کسی کو مورد الزام ٹھہرانا قبل از وقت ہوگا۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)