یورپی یونین نے بیلاروس کے انتخابی نتائج مسترد کردیے
20 اگست 2020یورپی یونین کے رہنماوں نے بیلاروس کے صدرالیکسانڈر لوکاشینکو کے انتخابات میں کامیابی کے دعووں کو بھی مسترد کردیا ہے۔ یونین نے موجودہ بحران کے حل کے لیے قومی مذاکرات پر بھی زور دیا ہے۔
یورپی یونین کے رہنماوں نے بدھ کے روز کہا کہ وہ بیلاروس میں صدارتی انتخابات کے متنازعہ نتائج کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا کہنا تھا کہ نو اگست کو ہونے والے انتخابات 'نہ تو آزادنہ تھے اور نہ ہی منصفانہ۔‘
چانسلر میرکل نے یوروپی رہنماوں کی ایک ہنگامی ویڈیو کانفرنس کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کو'اس میں ذرا برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی تھیں۔ اور اسی وجہ سے ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے۔‘
جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا کہ بیلاروس کے عوام کے پاس اپنے مستقبل کے انتخاب کا حق ہونا چاہیے اور بیلاروس کے عوام جانتے ہیں کہ انہیں کیا چاہیے۔ انہوں نے فون پر بات چیت کے دوران الیکسانڈر لوکاشینکوکے جارحانہ رویے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔
یورپی یونین کے رہنماوں کی میٹنگ کے بعد جاری آفیشیل بیان میں کہا گیا ہے ”یورپی یونین بیلاروس میں ہونے والی پیش رفت پر انتہائی قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے اور وہاں ہونے والے واقعات پراس کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔ نو اگست کے انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی منصفانہ، اس لیے ہم اسے اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرسکتے۔"
خیال رہے کہ حالیہ صدارتی انتخابات میں صدرالیکسانڈر لوکاشینکوایک بار پھر منتخب ہوگئے ہیں۔ وہ بیلاروس پر پچھلے 26 برسوں سے حکومت کررہے ہیں اور اس مرتبہ چھٹی بار اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ ملکی الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات میں انہیں 80 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ لیکن انتخابات میں حکومت پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے اور اس کے بعد سے ہی ملک بھر میں حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے ہورہے ہیں۔
یورپی یونین کے صدر چارلس مائیکل نے کہا کہ یورپی یونین 'بیلاروس کے عوام کے ساتھ‘ ہے اور یہ بلاک جلد ہی ان افسران کے خلاف پابندیاں نافذ کردے گا جن کے بارے میں اعلان کیا گیا تھا۔
چارلس مائیکل کا کہنا تھا کہ 'ملک میں مظاہرین کے خلاف تشدد کرنے والے، کشیدگی پھیلانے والے، دباو ڈالنے والے اور انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار افراد تک جلد ہی پہنچا جائے گا۔‘ انہوں نے کہا کہ 'ان افراد پر یورپی یونین میں سفری پابندی ہوگی اور اثاثے بھی منجمد ہوں گے۔‘
یورپی یونین کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ انتخابات نہ تو آزادنہ تھے اور نہ ہی شفاف تھے او ریہ بین الاقوامی معیار پر بھی پورے نہیں اترتے تھے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ 'بیلار وس کے عوام بہتری کے مستحق ہیں، وہ اپنی قیادت کے انتخاب اور مستقبل کو سنوارنے کے لیے جمہوری حق رکھتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ لوکاشینکو کے انسانی حقوق سے متعلق شکایتوں کے بعد یورپی یونین نے پابندیاں عائد کردی تھیں جنہیں 2016 میں جزوی طورپر اٹھالی گئی تھی۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیئر لائن نے بتایا کہ یورپی یونین نے بیلاروس حکومت کے لیے 63 سوا چھ کروڑ ڈالر کی جو رقم مختص کی تھی، وہ اب ملک کی سول سوسائٹی، حکومتی کارروائیوں کی وجہ سے متاثرین اور کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جانے والے پروگراموں کو د ی جائے گی۔
اس دوران بیلار وس کی میڈیا نے بدھ کے روز خبر دی ہے کہ ملک میں جاری مظاہروں کے دوران جنوب مغربی شہر بریسٹ میں ایک شخص کی موت ہوگئی۔ حالیہ مظاہروں میں یہ تیسری ہلاکت ہے۔
دریں اثنا جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بتایا کہ انہوں نے فون پر با ت چیت کے دوران ثالثی کی پیشکش کی لیکن لوکاشینکو نے اسے مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ'الیگزینڈر لیوکاشینکو نے فون پر جارحانہ رویہ اپنایا اور مسترد کردیا جس پر مجھے افسوس ہے۔‘ میرکل کا کہنا تھا 'ثالثی اس وقت ہوسکتی ہے جب آپ تمام فریقین سے رابطے میں ہوں۔
خیال رہے کہ یورپی یونین کے رہنماوں کی اس میٹنگ سے قبل صدارتی الیکشن میں لوکاشینکو کی قریبی حریف سویٹلانا ٹیخانوسکایا نے یورپی یونین سے اپیل کی تھی کہ وہ اس غیر منصفانہ انتخابات کو تسلیم نہ کریں۔ انتخابات کے نتائج کے بعد وہ پڑوسی ملک لتھوانیا چلی گئی ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)