1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست کیا ہے؟

17 جنوری 2023

ایران کی پاسداران انقلاب فورس یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں جلد ہی شامل کی جا سکتی ہے۔ ایسے افراد یا گروہ جن کو اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے، انہیں متعدد قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4MIYf
Iran - Spezialeinheit der iranischen Polizei
تصویر: Nikoubazl Irangene/imago images

یورپی یونین کی طرف سے کالعدم قرار دیے جانے والے افراد، تنظیموں اور گروہوں کے نہ صرف مالی اثاثے منجمد کر دیے جاتے ہیں بلکہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونے والے افراد کو سفری پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

یورپی یونین کے رکن ممالک جرمنی اور فرانس ایرانی پاسداران انقلاب کو بلیک لسٹ کرنے کے حق میں ہیں۔ ایران میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں شامل کم ازکم چار افراد کی سزائے موت میں ملوث ہونے کی بنا پر ان دونوں ممالک نے ایرانی فوج کے ایلیٹ یونٹ اسلامک رولوشنری گارڈز (آئی آر جی سی) کو دہشت گرد تنظیموں کی یورپی فہرست میں شامل کرنے مطالبہ کیا ہے۔

یورپی یونین کی مشترکہ سکیورٹی پالیسی کو بنیاد بناتے ہوئے جرمنی و فرانس دیگر رکن ممالک سے مشاورت کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک اس ایرانی ایلیٹ فورس کو دہشت گردوں کو فہرست میں شامل کرنے پر رضا مندی ظاہر کر سکتے ہیں۔

ایران میں 26 مظاہرین کو پھانسی کا سامنا ہے، ایمنسٹی

ایرانی ریپر کے خلاف سزائے موت کے مقدمے کی دوبارہ سماعت

انٹرنیشنل سینٹر برائے انسداد دہشت گردی نامی تھنک ٹینک سے وابستہ تانیہ مہر کا کہنا ہے کہ یورپی یونین تئیس جنوری تک اس حوالے سے اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے کسی کو دہشت گرد قرار دینے معیار کیا ہے اور اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟

یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست کیا ہے؟

امریکہ میں نائن الیون کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد یورپی یونین نے دسمبر سن 2001 میں پہلی مرتبہ اس لسٹ کو ترتیب دینا شروع کیا تھا۔ اس لسٹ میں شامل افراد، گروہوں اور تنظیموں کو دہشت گردانہ کارروائیوں سے کسی نہ کسی حوالے سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔

یورپی یونین ایران پر مزید پابندیاں لگائے گی؟

اس فہرست کی تیاری کا مقصد دہشت گردوں اور ان کو مالی فنڈز مہیا کرنے والوں کی شناخت کرنا ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کی نقل و حرکت پر پابندی اور مالی اثاثوں کو منجمد کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے دہشت گردانہ عزائم کی تکمیل میں ناکام بنا دیے جائیں۔

اس وقت اس فہرست میں تیرہ افراد اور اکیس گروپ شامل ہیں۔ یہ افراد نہ صرف یورپی یونین رکن ممالک بلکہ اس سے باہر بھی فعال ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں، جن کے بارے میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ بمباری سے لے کر کسی کے قتل کے منصوبے میں شامل ہوئے۔

اس فہرست میں شامل ہونے والے افراد اور اداروں سے اقتصادی تعاون ختم کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایران کی پاسداران انقلاب کو اس لسٹ میں شامل کر لیا جاتا ہے تو یورپی یونین رکن ممالک میں کام کرنے والے افراد اور تجارتی اداروں کو بھی اس ایرانی عسکری تنظیم کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون یا اشتراک سے روکا جا سکتا ہے۔

کسی کو اس فہرست میں کیسے شامل کیا جاتا ہے؟

کسی دہشت گردانہ کارروائی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر شامل کسی بھی شخص یا گروہ کو اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کے خلاف چھان بین ہو رہی ہے یا اس پر جرم ثابت ہو گیا ہے تو اسے بھی اس فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے۔

کچھ کیسوں میں ایسے افراد یا گروہوں کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے، جن کے خلاف باقاعدہ تحقیقات نہ کی گئی ہوں۔ یورپی یونین کے رکن ممالک یا کوئی نان ممبر ریاست بھی کسی شخص یا گروہ کو اس فہرست میں ڈالنے کی سفارش کر سکتی ہے۔

اس کے بعد یورپی یونین کا انسداد دہشت گردی کا ایک خصوصی ادارہ COMET اس تجویز پر غور کرتا ہے اور اپنمی تجاویز پیش کرتا ہے کہ آیا تجویز کردہ شخص یا گروہ کو اس فہرست میں شامل کر لینا چاہیے۔

یہ تجویز بعد ازاں یورپی کونسل کو ارسال کی جاتی ہے، جس میں یورپی یونین رکن ممالک کے سربراہان مملکت و ریاست بھی اس معاملے کو پرکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دو اضافی اعلیٰ یورپی عہدیداریعنی یورپی کمیشن کا سربراہ اور یورپی کونسل کا صدر بھی حتمی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کسی فرد یا گروہ کو دہشت گرد قرار دے دیتی ہے تو ممکن ہے کہ یورپی یونین کی دہشت گردوں کی لسٹ میں بھی اسے شامل کر لیا جائے۔

اس لسٹ میں شامل افراد یا گروہ کون ہیں؟

اس فہرست میں القاعدہ اور اس سے وابستہ گروہوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ اور اس کی حامی تنظیمیں بھی اس لسٹ میں شامل ہیں۔

فلسطینی اسلامی جنگجو گروہ حماس بھی یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔ ساتھ ہی لبنان کے حزب اللہ کے ملٹری ونگ جیسے متعدد عسکری گروہ بھی ممنوعہ قرار دیے جا چکے ہیں۔

ایرانی معیشت کا بڑا حصہ، ایرانی انقلابی گارڈز کے ہاتھ میں

اس فہرست کے مطابق ترکی سے علحیدگی پسندوں کی کردستان ورکرز پارٹی بھی کالعدم ہے اور سری لنکا کی لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام بھی۔ یورپی یونین نے کولمبیا کی باغی تنظیم ELN اور فلپائن کی کمیونسٹ پارٹی کو بھی ممنوعہ قرار دے رکھا ہے۔

تاہم ایران کے پاسداران انقلاب کو دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرنا ایک غیر معمولی قدم ہو گا۔ کیونکہ ابھی تک یورپی یونین نے کسی خودمختار ملک کی فوج کے کسی یونٹ کو دہشت گرد قرار نہیں دیا ہے۔ تاہم یہ بھی واضح رہے کہ اس ایرانی فورس کے کچھ عہدیداروں کو یورپی لسٹ کے تحت کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔

ایران میں موت کی سزائیں ’ریاستی منظوری سے ہلاکتیں،‘ اقوام متحدہ

احتجاجی مظاہروں کے تناظر میں ایران میں مزید دو افراد کو پھانسی

تانیہ مہر کے مطابق اگرچہ ایران پر متعدد قسم کی عالمی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن یورپی یونین کی طرف سے ایرانی ایلیٹ فورس کو دہشت گرد قرار دے دینا ایک بڑی پیش رفت ہو گی۔

انٹرنیشنل سینٹر برائے انسداد دہشت گردی نامی تھنک ٹینک سے وابستہ مہر نے مزید کہا کہ گو یہ پابندی ایک علامتی قدم ہی ہے لیکن اس طرح ایران کو ایک سخت پیغام جائے گا۔

کیا اس فہرست سے نام ہٹائے جا سکتے ہیں؟

یورپی یونین ہر چھ ماہ بعد اپنی اس فہرست کو اپ ڈیٹ کرتی ہے۔ اس پرنظر ثانی کی جاتی ہے اور ممکن ہے کہ کسی کو اس فہرست سے نکال دیا جائے یا کسی اور کو شامل کر لیا جائے۔

ایک مثال کولمبیا کے باغی گروہ فارک کی بھی ہے۔ سن 2016 میں ایک امن ڈیل کے بعد فارک باغیوں کو یورپی یونین کی دہشت گردوں کی لسٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ یہ باغی کئی دہائیوں تک کولمبیا میں مسلح بغاوت کا حصہ رہے تھے۔

اسی طرح کوئی شخص یا گروہ یورپی یونین کے اس فیصلے کو قانونی طور پر چیلنج بھی کر سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی لسٹ میں ڈالنے کی وجہ سے فلسطینی تنظیم حماس نے سن 2014 میں یورپی یونین کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کی دی تھی۔

اس تنظیم نے اپنی جدوجہد کو جائز مزاحمت قرار دیا تھا۔ تب یورپی یونین کی جنرل کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اس تنظیم کو دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کر دیا جائے۔

عدالت کے مطابق صرف میڈیا رپورٹوں کی وجہ سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا جبکہ حقائق جاننے کی خاطر باقاعدہ تفتیشی عمل نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں سن 2017 میں یورپی یونین کی عدالت برائے انصاف نے یورپی یونین کی اعلیٰ ترین عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

شولا لاوِل (ع ب، ع ت)

ایران اپنا انٹرنیٹ نظام بنانے کی کوشش میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں