یورپی یونین کے رکن ممالک میں مردم شماری کا آغاز
9 مئی 2011جرمنی میں آخری بار مردم شماری 1987 ء میں ہوئی تھی۔ تب مردم شماری کے خلاف بڑے مظاہرے ہوئے تھے۔ اب یہ مزاحمت کافی حد تک قابو میں ہے۔
آخر یورپی سطح پر مردم شماری کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب یورپ کے اعداد و شمار کے محکمے Eurostat کے ڈائریکٹر جنرل ’والٹر راڈر ماخر‘ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا۔ وہ کہتے ہیں ’کیونکہ ہم اس دور میں نہ تو برادری، نہ ہی کسی ایک ملک میں رہ رہے ہیں۔ جب ہم یورپی یونین کا حصہ بن جاتے ہیں اور یورپی سطح پر سیاست کرتے ہیں تو ہر ممبر ملک کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کا معیار ایک ہی سا ہونا چاہیے تاکہ ان کا ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کیا جا سکے۔ مثلاً فن لینڈ، فرانس اور جرمنی کے کوائف اکھٹا دیکھےجاسکیں‘۔
تاہم یورپی سطح پر مردم شماری سے ہر کوئی متفق نظر نہیں آتا۔ 80 کے عشرے میں اس کے خلاف بڑے مظاہرے ہوئے اور لوگوں نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے اُس سوال نامے کو رد کر دیا تھا جو مردم شماری میں شامل کیا گیا تھا۔ اس تنازعے نے ڈیٹا کے تحفظ کی پالیسی کو بہت تقویت دی۔ اس بار مردم شماری کے موقع پر اس کے خلاف مزاحمت بہت ہی کم دیکھنے میں آرہی ہے۔ تاہم یورپی پارلیمان میں گرین پارٹی کے ممبر ژاں فیلپ آلبرشٹ کو اس بارے میں کچھ فکر لاحق ہے۔ اُن کے بقول ’میرے خیال میں یورپی باشندوں کے ذاتی کوائف جمع کرنے اور اس عمل میں اس اصول کو سختی سے مد نظر رکھا جانا چاہیے کہ ان کوائف کا استعمال محض اُسی مقصد کے لیے ہوگا جس کے لیے یہ جمع کیے گئے ہیں۔ یعنی جیسے ہی یہ مقصد پورا ہو جائے، ان کوائف کو فوری طور سے تلف کردینا چاہیے‘۔
ژاں فیلپ آلبرشٹ اس ضمن میں مردم شماری کے پلان میں چند نقائص دیکھتے ہیں، مثلاً مردم شماری کے دوران اکھٹا کیے گئے چند زاتی کوائف کئی کئی سالوں تک محفوظ رکھے جاتے ہیں تاکہ ان کو جانچا جا سکے۔ ژاں فیلپ اس عمل کو ڈیٹا کے تحفظ کے قوانین کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
تاہم یورپ کے اعداد و شمار کے محکمے Eurostat کے ڈائریکٹر جنرل والٹر راڈر ماخرکے خیال میں اس ضمن میں کسی قسم کے خدشات کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ نئی مردم شماری میں کوائف کے تحفظ کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔
رپورٹ: کرسٹوف ہاسل باخ/ کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک