بھارتی مردم شماری میں اب ذات سے متعلق تفصیلات بھی
12 اگست 2010آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک میں یہ متنازعہ حکومتی فیصلہ نئی دہلی میں جمعرات کو کابینہ کے ایک اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت وزیر خزانہ پرنب مکھرجی نے کی۔ موجودہ مردم شماری کے دوران لاکھوں اہلکار 1.2 بلین شہریوں سے متعلق اگلے سال کے وسط تک اعداد و شمار جمع کریں گے، اور قومی سطح پر اولین نتائج اس کے بعد سامنے آئیں گے۔
مردم شماری میں شہریوں کی ذات پات سے متعلق معلومات کی شمولیت کی حامی اور طبقاتی تقسیم کے پس منظر میں سیاست کرنے والی کئی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ یوں ریاست کے لئے ممکن ہو جائے گا کہ مخصوص سماجی طبقات کے لئے جو سرکاری اقدامات کئے جائیں، ان کا فائدہ ایسے شہریوں تک پہنچے بھی۔
لیکن ایسا پبلک ڈیٹا جمع کرنے کے مخالف حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ذات کی بنیاد پر سماجی تقسیم بھارتی معاشرے کا سب سے منفی پہلو ہے۔ ایسے ناقدین کا کہنا ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر عوامی پہچان یا ’کاسٹ سسٹم‘ استحصال کی وجہ بنتا ہے، یوں طبقاتی درجہ بندی کے نظام کو تقویت ملتی ہے اور معاشرتی ناانصافی میں اضافہ ہوتا ہے۔
بھارت میں ان دنوں جاری پاپولیشن سروے کا آغاز اپریل میں ہوا تھا۔ اس دوران پندرہ برس سے زائد عمر کے ہر شہری کے، اس کی تصویر اور فنگر پرنٹس کے ساتھ ذاتی کوائف اس طرح جمع کئے جا رہے ہیں کہ بعد میں ایک قومی بائیو میٹرک ڈیٹا بیس تیار ہو جائے۔ سروے کی تکمیل کے بعد ان اعداد و شمار کو شہریوں کو سرکاری شناختی کارڈ جاری کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
اس عمل کے دوران عام شہریوں سے اب تک ان کی تعلیم، پیشے، جنس اور مذہب کے بارے میں معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، جن میں اب ذات سے متعلق تفصیلات بھی شامل ہو جائیں گی۔
بھارت میں مردم شماری بالعموم ہر دس سال بعد کرائی جاتی ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا 1872ء میں ہوا تھا اور موجودہ مردم شماری اس ملک میں اپنی نوعیت کا 15واں منصوبہ ہے۔ برصغیر کی تقسیم اور برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے اختتام سے قبل بھارت میں ذات پات کی بنیاد پر آخری مردم شماری 1931ء میں کرائی گئی تھی، جس کو قریب 80 برس ہو چکے ہیں۔
اس مردم شماری کے دوران، جو تکنیکی طور پر پندرہ برس سے زائد عمر کے شہریوں کی رجسٹریشن کا عمل ہے، 25 لاکھ اہلکار قریب ایک سال تک ملک کے درجنوں صوبوں میں سات ہزار سے زائد شہروں اور چھ لاکھ سے زائد دیہات میں گھر گھر جا کر اعداد و شمار جمع کریں گے۔ اس دوران مجموعی طور پر 11 ملین ٹن کاغذ استعمال کیا جائے گا اور جملہ اخراجات کی مالیت 60 بلین روپے یا 1.3 بلین امریکی ڈالر کے برابر ہو گی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت. امجد علی