1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی مردم شماری میں اب ذات سے متعلق تفصیلات بھی

12 اگست 2010

بھارتی حکومت کے ایک فیصلے کے مطابق اس وقت جاری مردم شماری میں ملکی شہریوں سے متعلق جو ذاتی کوائف جمع کئے جا رہے ہیں، ان میں اب یہ بات بھی شامل ہو گی کہ کون سا شہری سماجی طور پر کس طبقے یا ذات سے تعلق رکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/OmVw
ممبئی کے ایک دھوبی گھاٹ پر کام کرنے والے تین نوجوانتصویر: DW

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک میں یہ متنازعہ حکومتی فیصلہ نئی دہلی میں جمعرات کو کابینہ کے ایک اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت وزیر خزانہ پرنب مکھرجی نے کی۔ موجودہ مردم شماری کے دوران لاکھوں اہلکار 1.2 بلین شہریوں سے متعلق اگلے سال کے وسط تک اعداد و شمار جمع کریں گے، اور قومی سطح پر اولین نتائج اس کے بعد سامنے آئیں گے۔

Kolkata Strike Trains Streik der Bahn in Kalkutta
کولکتہ کے ایک ریلوے سٹیشن پر ملازمین کی ہڑتال کے باعث جمع ہونے والا مسافروں کا ہجومتصویر: UNI

مردم شماری میں شہریوں کی ذات پات سے متعلق معلومات کی شمولیت کی حامی اور طبقاتی تقسیم کے پس منظر میں سیاست کرنے والی کئی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ یوں ریاست کے لئے ممکن ہو جائے گا کہ مخصوص سماجی طبقات کے لئے جو سرکاری اقدامات کئے جائیں، ان کا فائدہ ایسے شہریوں تک پہنچے بھی۔

لیکن ایسا پبلک ڈیٹا جمع کرنے کے مخالف حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ذات کی بنیاد پر سماجی تقسیم بھارتی معاشرے کا سب سے منفی پہلو ہے۔ ایسے ناقدین کا کہنا ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر عوامی پہچان یا ’کاسٹ سسٹم‘ استحصال کی وجہ بنتا ہے، یوں طبقاتی درجہ بندی کے نظام کو تقویت ملتی ہے اور معاشرتی ناانصافی میں اضافہ ہوتا ہے۔

بھارت میں ان دنوں جاری پاپولیشن سروے کا آغاز اپریل میں ہوا تھا۔ اس دوران پندرہ برس سے زائد عمر کے ہر شہری کے، اس کی تصویر اور فنگر پرنٹس کے ساتھ ذاتی کوائف اس طرح جمع کئے جا رہے ہیں کہ بعد میں ایک قومی بائیو میٹرک ڈیٹا بیس تیار ہو جائے۔ سروے کی تکمیل کے بعد ان اعداد و شمار کو شہریوں کو سرکاری شناختی کارڈ جاری کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

Indien Verkehr Stau Guwahati
بھارتی شہر گوہاٹی کی ٹریفک سے بھری ایک مرکزی شاہراہتصویر: UNI

اس عمل کے دوران عام شہریوں سے اب تک ان کی تعلیم، پیشے، جنس اور مذہب کے بارے میں معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، جن میں اب ذات سے متعلق تفصیلات بھی شامل ہو جائیں گی۔

بھارت میں مردم شماری بالعموم ہر دس سال بعد کرائی جاتی ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا 1872ء میں ہوا تھا اور موجودہ مردم شماری اس ملک میں اپنی نوعیت کا 15واں منصوبہ ہے۔ برصغیر کی تقسیم اور برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے اختتام سے قبل بھارت میں ذات پات کی بنیاد پر آخری مردم شماری 1931ء میں کرائی گئی تھی، جس کو قریب 80 برس ہو چکے ہیں۔

اس مردم شماری کے دوران، جو تکنیکی طور پر پندرہ برس سے زائد عمر کے شہریوں کی رجسٹریشن کا عمل ہے، 25 لاکھ اہلکار قریب ایک سال تک ملک کے درجنوں صوبوں میں سات ہزار سے زائد شہروں اور چھ لاکھ سے زائد دیہات میں گھر گھر جا کر اعداد و شمار جمع کریں گے۔ اس دوران مجموعی طور پر 11 ملین ٹن کاغذ استعمال کیا جائے گا اور جملہ اخراجات کی مالیت 60 بلین روپے یا 1.3 بلین امریکی ڈالر کے برابر ہو گی۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت. امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں