’یورپ کی جانب ہجرت صدیوں سے جاری ہے‘
1 جولائی 2016جرمنی کی وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں یا بُنڈس ٹاگ کے اسپیکر نوربرٹ لامرٹ نے یہ بات گزشتہ شب بون شہر میں مہاجرین کے موضوع پر منعقدہ ایک تقریب کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ لامرٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سوچنا بھی خام خیالی ہے کہ لوگوں کو یورپ کی جانب ہجرت کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن
علی حیدر کو جرمنی سے ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟
لامرٹ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اپنی مرضی سے ترک وطن کرنے والوں اور جبری طور پر نقل مکانی کرنے والوں کے درمیان فرق کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشی ضروریات اور بہتر مستقبل کی خواہش میں اپنی مرضی سے یورپ کا کرنے والے تارکین وطن اور جنگوں اور مظالم کے باعث اپنے وطنوں سے بھاگ کر یورپ میں پناہ تلاش کرنے والے افراد میں تفریق کرنا اس لیے ضروری ہے کہ یورپی عوام اس بات کو سمجھ سکیں کہ کون پناہ کا حق دار ہے اور کون نہیں۔
نوربرٹ لامرٹ نے خبردار کیا کہ اگر مجبوراﹰ ترک وطن کرنے والے مہاجرین کو یورپ میں پناہ دیے جانے کا حق دار تسلیم نہ کیا گیا تو یورپی تہذیب خطرے میں پڑ جائے گی۔
اس تقریب میں ایرانی نژاد جرمن ادیب نوید کرمانی بھی موجود تھے۔ نوید کرمانی کو 2015ء میں بین المذاہبی مکالمت کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں جرمن بُک انڈسٹری کا امن انعام دیا گیا تھا۔
کرمانی نے یورپ کی جانب ہجرت کے ’عمومی راستوں‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یورپ کی جانب ہجرت کے راستے بند کرنے سے وقتی طور پر مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد تو کم کی جا سکتی ہے لیکن راستے بند کرنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔
نوید کرمانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جنگوں اور مظالم کے باعث ہجرت کرنے والے انسانوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے لیکن یورپی ممالک نے بہت کم مہاجرین کو اپنی سرزمین پر پناہ دی ہے۔ کرمانی کے مطابق یورپ کو اس بارے میں سوچنا چاہیے کیوں کہ یہ مسائل برسوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یورپ کی جانب ہجرت کو منظم کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے یورپی سرحدوں کی مؤثر نگرانی کی جانا چاہیے تاہم اس سے یہ مراد نہیں لی جانا چاہیے کہ مہاجرین کو اپنے ملک میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے۔