یوکرینی جنگ: امن مذاکرات صرف ’نئے عالمی نظام‘ کے تحت، روس
7 اپریل 2023روس کی طرف سے یوکرین میں فوجی مداخلت کے ساتھ گزشتہ برس فروری کے اواخر میں شروع ہونے والی یوکرینی جنگ اب اپنے 14 ویں مہینے میں ہے اور اب تک روس اور یوکرین دونوں کو ہی بےتحاشا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے۔ کئی یوکرینی شہر تو ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
یوکرینی جنگی سے متعلق منصوبے کی امریکی خفیہ دستاویزات لیک
اس جنگ میں امریکہ کی قیادت میں مغربی دفاعی اتحاد کے رکن یورپی ممالک سمیت بہت سی ریاستیں یوکرین کی اخلاقی، سیاسی، مالی اور فوجی مدد کر رہی ہیں جب کہ یہ کوششیں بھی جاری ہیں کہ روس کو اس جنگ کے خاتمے کے لیے امن بات چیت شروع کرنا چاہیے۔
’چین روس کو ہوش میں لا سکتا ہے،‘ ماکروں
یورپی یونین کے کمیشن کی صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اسی ہفتے چین کا ایک تین روزہ سرکاری دورہ بھی کیا، جس کا ایک اہم مقصد چین پر یہ دباؤ ڈالنا بھی تھا کہ وہ روس کو اس جنگ کے خاتمے کی سوچ اور امن بات چیت کے آغاز کا قائل کرے۔
اس بارے میں فرانسیسی صدر ماکروں نے تو کل جمعرات چھ اپریل کے روز بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے دوران یہ بھی کہہ دیا تھا، ''میں جانتا ہوں کہ میں اس بارے میں آپ سے یہ امید کر سکتا ہوں کہ آپ روس کو ہوش میں لا سکتے ہیں اور (یوکرینی جنگ کے خاتمے کے لیے) ہر کسی کو مذاکرات کی میز پر۔‘‘
فن لینڈ کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں باضابطہ شمولیت
چینی موقف نہیں بدلے گا، کریملن
فرانسیسی صدر ماکروں نے بیجنگ میں جس موقف کا اظہار کیا، اس کے اگلے ہی روز روس کی طرف سے کہا گیا کہ ماسکو اس بات ہر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے کہ یورپی کمیشن کی صدر فان ڈئر لاین اور فرانسیسی صدر ماکروں کے دورہ چین کے دوران ان کی چینی قیادت سے کیا بات چیت ہوئی اور یہ کہ روسی یوکرینی جنگ سے متعلق ''چینی موقف بالکل نہیں بدلے گا۔‘‘
جرمنی کے نائب چانسلر یوکرین کے غیر اعلانیہ دورے پر
اس سلسلے میں ماسکو میں کریملن کی طرف سے آج جمعہ سات اپریل کے روز کہا گیا کہ بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور یورپی کمیشن کی صدر فان ڈئر لاین کے مابین ہونے والی 'بات چیت اہم‘ تھی مگر چین کسی بھی بیرونی دباؤ کے تحت یوکرینی تنازعے سے متعلق اپنا موقف کبھی تبدیل نہیں کرے گا۔
’نئے عالمی نظام‘ کا مطالبہ
روسی یوکرینی جنگ ہی کے حوالے سے اس خونریز تنازعے کے خاتمے کی وجہ بن سکنے والے ممکنہ امن مذاکرات پر روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کھل کر بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بھی امن بات چیت صرف ایک 'نیو گلوبل آرڈر‘ کے تحت ہی ممکن ہو سکے گی۔
سلامتی کونسل کی روسی صدارت ’ایک بھیانک مذاق‘ ہے، یوکرین
پوٹن کا بیلاروس میں روسی جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا اعلان
سیرگئی لاوروف نے اپنے دورہ ترکی کے دوران کہا کہ ایک 'نیا عالمی نظام‘ ایسا ہونا چاہیے، جس میں عالمی سطح پر امریکہ کو کوئی غلبہ حاصل نہ ہو۔ لاوروف کے الفاظ میں، ''یوکرینی جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی بھی امن مذاکرات صرف روسی مفادات کو مدنظر رکھنے کی بنیاد پر ہی ہو سکتے ہیں۔ بات ان اصولوں کی ہے، جو ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد بنیں گے۔‘‘
پوٹن کو گرفتار کرنے کا مطلب ہوگا 'اعلان جنگ'، سابق روسی صدر
یہ بیان دیتے ہوئے روسی وزیر خارجہ لاوروف نے یہ دھمکی بھی دی کہ روس اقوام متحدہ اور ترکی کی ثالثی کوششوں سے طے پانے والے اور یوکرین کے ساتھ کیے گئے اس معاہدے سے نکل بھی سکتا ہے، جس کا مقصد یوکرینی زرعی اجناس کی سمندری راستے سے برآمد کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔
سیرگئی لاوروف نے ترک دارالحکومت انقرہ میں قیام کے دوران اپنے ترک ہم منصب مولود چاؤش اولو سے ملاقات کی اور اس کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ اسی دورے کے دوران ان کو ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے بھی ملنا ہے۔
م م / ش ح (ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی)