1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہودی لڑکوں کا اغوا، معاملہ سنگین تر ہوتا ہوا

کشور مصطفیٰ18 جون 2014

اسرائیل نے 2011 ء میں قیدیوں کے تبادلے کے تحت رہا کیے جانے والے 51 فلسطینیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا ہے۔ اس کا اعلان آج بدھ کو اسرائیلی فوج نے کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CLED
تصویر: AFP/Getty Images

ان فلسطینیوں کو پانچ روز قبل مغربی اُردن کے مقبوضہ علاقے سے تین اسرائیلی لڑکوں کے لاپتہ ہوجانے کے بعد اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا ہے کہ مبینہ طور پر ان فلسطینیوں نے اسرائیلی لڑکوں کو اغوا کیا ہے۔

اسرائیل نے 51 فلسطینیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے سے پہلے گزشتہ منگل کو ہی غزہ پٹی میں آباد حماس کے خلاف ایک نئے بڑے آپریشن کی دھمکی دی تھی۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق حماس نے مغربی اُردن کے علاقے سے پانچ روز قبل تین اسرائیلی ٹین ایجرز کو اغوا کر لیا تھا۔ ایک سرکاری بیان میں اس کارروائی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل ان نو عمر اسرائیلی لڑکوں کی رہائی تک حماس کے خلاف اپنی کارروائیاں ختم نہیں کرے گا۔ کسی نے بھی ان اسرائیلی لڑکوں کے لاپتہ ہونے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم اسرائیل نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان لڑکوں کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اغوا کیا ہے۔ ایک یہودی مدرسے کے ان طالب علموں کو آخری بار گزشتہ جمعرات کی شام غرب اردن کے ایک علاقے میں لفٹ لے کر سفر کرنے والوں کے ایک اسٹاپ پر دیکھا گیا تھا۔ ان کے لاپتہ ہونے کے بعد سے نہ تو اب تک اُن لڑکوں کی طرف سے اب تک کوئی ایک لفظ سننے کو ملا ہے، نہ عوامی سطح پر کسی کو اس کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ حماس سمیت کسی نے بھی اب تک اسے اغوا برائے تاوان کا کیس بنا کر تاوان کا مطالبہ نہیں کیا ہے اور حماس نے اس کارروائی میں ملوث ہونے کے الزام کو رد کیا ہے۔

Israel Palästinenser Armee Suche nach Jugendliche in Hebron Westbank
گمشدہ اسرائیلی لڑکوں کی تلاش جاری ہےتصویر: Reuters

اسرائیل کے ایک فوجی ترجمان لیفٹیننٹ کرنل پیٹر لرنر نے ایک بیان میں کہا کہ 65 فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں 51 وہ فلسطینی قیدی ہیں جو تل ابیب حکومت کی طرف سے تین سال قبل اپنے ایک فوجی جعیلاد شالت کی رہائی کے عوض رہا کیے جانے والے ایک ہزار ستائیس فلسطینی قیدیوں میں شامل تھے۔ اسرائیلی فوجی جعیلاد شالت کو 2006 ء میں حماس نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

اسرائیلی لیفٹیننٹ کرنل پیٹر لرنر کا ایک بیان میں کہنا تھا،" ہم نے دو متوازی کوششیں جاری کر رکھی ہیں، پہلی یہ کہ ہمارے گمشدہ تینوں لڑکوں کو بازیاب کروایا جائے دوسرے یہ کہ ہمیں حماس کی اس کارروائی کا جواب دینا ہے" ۔ اُدھر فلسطینیوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے دوبارہ قید کیے جانے والے فلسطینیوں کی اکثریت کا تعلق حماس سے ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس ڈیل میں مصر نے جزوی طور پر ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ فلسطینی قیدیوں کے ایک کلب کے چیئرمین قدورا فارس اس بارے میں کہتے ہیں، " اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اُس کا سکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ محض انتقام کی پالیسی ہے" ۔ اس کلب کا کام اسرائیل کی حراست میں فلسطینیوں کی وکالت کرنا ہے۔

Israelische Armee auf der Sucher nach verschwundenen Jugendlichen
اسرائیل قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے: حماستصویر: Reuters/Ammar Awad

اُدھر ایک مصری اہلکار نے کہا ہے کہ قاہرہ، جو حماس اور فلسطینیوں کے دیگر دھڑوں کے ساتھ رابطے میں ہے، گمشدہ اسرائیلی لڑکوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے عمل میں اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ تاہم اس اہلکار نے مصری اور فلسطینی میڈیا کی اُن خبروں کی تردید کی ہے جن کے تحت مصر کی اس سلسلے میں ثالثی پہلے سے ہی جاری تھی۔

آج بُدھ کو فلسطینی صدر محمود عباس نے جدہ منعقدہ اسلامک تعاون کی تنظیم او آئی سی کے ایک اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"گزشتہ ہفتے تین اسرائیلی ٹین ایجرز کو غرب اُردن سے اغوا کرنے والے عناصر فلسطینیوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، وہ ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ہم انہیں اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے"۔