1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستیوکرین

’یہی تو زمین پر دوزخ ہے‘، مشرقی محاذ کی یوکرینی فوج کا موقف

4 جولائی 2022

زمین کا ہر ٹکڑا جلا ہوا، راکھ ہو چکے جنگلات، مسلسل زمینی اور فضائی بمباری اور کٹے پھٹے جسموں والے ساتھی سپاہی، مشرقی یوکرین کے جنگی محاذ پر روسی حملوں کا مقابلہ کرتے یوکرینی فوجیوں نے کہا ہے، ’’یہی تو زمین پر دوزخ ہے۔‘‘

https://p.dw.com/p/4DdUH
تصویر: DIMITAR DILKOFF/AFP

مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونباس میں ڈونیٹسک اور لوہانسک کے روس نواز علیحدگی پسند خطوں میں ماسکو کی مسلح افواج کی زمینی توپوں اور جنگی طیاروں کی مسلسل بمباری کا مقابلہ کرتے ہوئے کییف حکومت کے فوجی دستوں میں شامل بہت سے سپاہیوں نے خبر رساں ادارے اے پی کے ساتھ انٹرویو میں اس جنگ کی تباہ کاریوں کی جو تصویر کشی کی، وہ دل ہلا دینے والی تھی۔

روس دانستہ طور پر میزائلوں کی ’دہشت‘ پھیلا رہا ہے، زیلنسکی

ڈونباس کے مشرقی یوکرینی علاقے میں روس اپنی پوری عسکری طاقت کے ساتھ زمینی اور فضائی حملے اس لیے جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس پورے علاقے پر اپنے مکمل فوجی قبضے کو یقینی بنا سکے۔

لوہانسک کے بعد دونیٹسک

روسی افواج کو لوہانسک کے یوکرینی خطے پر تو تقریباﹰ مکمل کنٹرول حاصل ہو چکا ہے اور لوہانسک کے گورنر سیرہئی گائیدائی کے مطابق اس جنگ میں روس اب اپنی پوری توجہ ڈونیٹسک کے علاقے پر مرکوز کرے گا۔ اس لیے کہ لوہانسک کے بعد ہمسایہ خطے ڈونیٹسک پر مکمل قبضے کے بعد روس اس سارے مشرقی یوکرینی خطے پر قابض ہو جائے گا، جو ڈونباس کہلاتا ہے۔

Ukraine | Zerstörungen in der Luhansk-Region
تصویر: Stanislav Krasilnikov/TASS /IMAGO

یوکرین کے اس علاقے کے باخموت نامی شہر سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یوکرینی فوج کے کئی سپاہیوں نے بتایا کہ روسی توپوں اور جنگی طیاروں سے مسلسل بمباری کے باعث بہت سے یوکرینی فوجیوں کے پاس بس یہی راستہ بچا تھا کہ وہ اپنے مورچوں میں چھپے بیٹھے رہیں اور انتظار کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی کرتے رہیں۔

یوکرین کے خلاف جنگ میں نئے روسی فوجیوں کی بھرتی کی مہم

جنگی محاذ سے واپس لوٹنے والے کییف حکومت کے ان فوجیوں کے مطابق خاص طور پر مشرق کے جنگی علاقوں میں حالات اتنے برے ہیں کہ کئی فوجیوں کو اگر ذہنی مسائل کا بھی سامنا رہا تو بہت سے دیگر ہر طرح کے حالات میں ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے روسی حملوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

'شہر جو جلا ہوا صحرا بن گیا‘

مشرقی یوکرین میں ملکی نیشنل گارڈز کی سووبودا بٹالین کے نائب کمانڈر لیفٹیننٹ وولودیمیر نازارینکو نے اے پی کو بتایا، ''میں ان فوجیوں میں شامل تھا، جو ملکی فوج کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر سیویروڈونیٹسک کے شہر سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے واپس لوٹ آئے۔‘‘

لیفٹیننٹ نازارینکو نے بتایا، ''ہم نے ایک ماہ تک روسی زمینی اور فضائی حملوں کا مقابلہ کیا۔ روسی ٹینکوں نے ہر اس جگہ پر اندھا دھند گولہ باری کی، جہاں ان کے خیال میں ہماری ممکنہ دفاعی پوزیشنیں ہو سکتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ سے پہلے ایک لاکھ ایک ہزار کی آبادی والا یہ شہر ہم جس حالت میں پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں، وہ صرف ایک جلا ہوا صحرا تھا۔‘‘

'یہی تو زمین پر دوزخ ہے‘

لیفٹیننٹ نازارینکو کی بٹالین کے ایک سپاہی آرٹیم روبان نے بتایا کہ روسی افواج نے سیویروڈوینٹسک کو بڑی منصوبہ بندی اور تواتر سے کیے جانے والے حملوں سے پوری طرح تباہ کیا۔

روسی فوجیوں کو بحیرہ اسود کے یوکرینی جزیرے سے نکلنا پڑ گیا

اس سپاہی نے کہا کہ اس کے ساتھی فوجیوں میں جب تک ہمت تھی، وہ اس علاقے کا دفاع کرتے رہے۔ پھر انہیں سیویروڈونیٹسک سے نکل کر 64 کلومیٹر دور مقابلتاﹰ محفوظ شہر باخموت کا رخ کرنا پڑ گیا۔

آرٹیم روبان نے بتایا، ''زمین پر اگر کسی جگہ دوزخ تھی یا ہے، تو وہ سیویروڈونیٹسک ہی ہے۔ ہم جن حالات میں لڑ رہے تھے، انہیں کسی بھی طرح انسانوں کے لیے قابل برداشت حالات نہیں کہا جا سکتا۔‘‘

یوکرین: لوہانسک میں روسی افواج نے حملے مزید تیز کر دیے

ان یوکرینی سپاہیوں نے بتایا کہ مشرقی یوکرین کے جنگی محاذ والے علاقے میں زمین کا ہر ٹکڑا بارود سے جلا ہوا تھا، جنگل گولہ باری کے نتیجے میں آگ لگنے سے راکھ ہو چکے تھے اور ان سپاہیوں کے لیے اپنے کٹے پھٹے جسموں والے ساتھی سپاہیوں کو دیکھنا بھی ایک ناقابل برداشت منظر تھا۔

آرٹیم روبان کے الفاظ میں، ''کبھی کبھی تو ہمارے پاس دن میں اپنے مورچوں میں چھپے رہنے اور انتظار اور دعائیں کرتے رہنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے جو ساتھی زخمی ہو جاتے تھے، انہیں جنگی محاذ سے پیچھے بھیجنے کے لیے ہمیں دو دو دن انتظار کرنا پڑتا تھا اور وہ بھی رات کے گھپ اندھیرے میں۔‘‘

م م / ع ا (اے پی، اے ایف پی)