یہ دربدر لوگ کون ہیں! کبھی سوچا آپ نے؟
20 جون 2024اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی طرف سے جون میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے اختتام تک مہاجرین کی تعداد تقریبا ایک سو سترہ ملین ہو چکی تھی۔
دنیا بھر میں جنم لینے والے مسلح تنازعات اور ظلم و جبر سے فرار ہونے والے ان مہاجرین کی بڑی تعداد کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
لوگ مہاجرت پر مجبور کیوں ہوتے ہیں؟ جبری نقل مکانی کی حرکیات کیا ہیں؟ کن ممالک سے زیادہ مہاجرت ہو رہی اور بہتر زندگی کی تلاش میں یہ بے گھر لوگ کن ممالک میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ جاننے کی کوشش کرتے شماریاتی انداز میں۔
بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد بڑھتی ہوئی
سن 2014 میں ہر ایک ہزار میں سے آٹھ افراد جبری طور پر بے گھر ہوئے تھے جب کہ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ سن 2023 کے اختتام تک ہر ایک ہزار میں سے چودہ افراد مہاجرت پر مجبور ہوئے۔
اس کا مطلب ہے کہ سن 2014 کے مقابلے میں اب تک دنیا بھر میں جبری طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد اٹھاون ملین بڑھی ہے۔ اپنے ممالک میں بحرانوں کی وجہ سےمہاجرت اختیار کرنے والے افراد کی یہ تعداد اٹلی کی مجموعی آبادی سے زیادہ بنتی ہے۔
زیادہ تر لوگ داخلی طور پر بے گھر ہوئے
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بے گھر ہونے والے 117.3 ملین افراد میں سے 68.3 ملین لوگ اپنے ہی ملک میں دربدر ہوئے۔ یہ تعداد برطانیہ کی آبادی سے زیادہ ہے۔
داخلی طور پر مہاجرت کا مطلب ہے کہ یہ لوگ اپنے گھروں، برادریوں، گاؤں، دیہات اور شہروں سے نقل مکانی پر تو مجبور ہوئے لیکن اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر نہیں گئے۔
یو این ایچ سی آر کے یہ اعداد و شمار صرف تشدد اور جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد سے متعلق ہیں۔ انٹرنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر (آئی ڈی ایم سی) کا اندازہ ہے کہ قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں 7.7 ملیں اضافی افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
داخلی طور پر بے گھر ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق کہاں سے؟
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے تجزیے سے علم ہوتا ہے کہ داخلی طور پر بے گھر ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق براعظم افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے ہے۔
داخلی طور پر دربدر ہونے والے 68.3 ملین افراد میں سے 48 فیصد کا تعلق افریقی جبکہ اکیس فیصد کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔
داخلی یا اندرونی طور پر زیادہ تر افراد سوڈان میں بے گھر ہوئے، جن کی تعداد نوّے لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ یہ عالمی سطح پر اپنے ہی ممالک میں بے گھر ہونے والی مجموعی تعداد کا تقریبا چودہ فیصد ہے۔
خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں بہتر لاکھ، عوامی جمہوریہ کانگو میں سڑسٹھ لاکھ اور یمن میں پنتالیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔
یورپی شہری بھی داخلی طور پر جبری نقل مکانی پر مجبور ہوئے
فلسطینی علاقوں، شام اور صومالیہ کے بعد قبرص میں سب سے زیادہ لوگ گھروں سے محروم ہوئے۔
قبرص میں دو لاکھ چالیس ہزار کے لگ بھگ افراد بے گھر تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ قبرص کی مجموعی آبادی کا بیس فیصد حصہ بنتا ہے۔
جارجیا، آذربائیجان، سربیا اور بوسنیا ہرزیگووینا میں بھی یہی صورتحال ہے، جہاں کئی دہائیوں قبل پہلے پیدا ہونے والے تنازعات کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد اپنے گھروں سے بے گھر ہوئی اور وہ ابھی تک اپنے آبائی علاقوں کا رخ نہیں کر سکی ہے۔
90 فیصد مہاجرین کا تعلق صرف دس ممالک سے
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق اپنے ممالک کو چھوڑ کر دیگر ملکوں میں پناہ حاصل کرنے والے مہاجرین کی تعداد 43.4 ملین بنتی ہے۔ یہ تعداد یورپی ملک پولینڈ کی کل آبادی سے زیادہ بنتی ہے۔
یو این ایچ سی آر کی رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ممالک پناہ حاصل کرنے والے افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہے۔
عالمی سطح پر ہر 10 میں سے 9 تارکین وطن افغان ہیں۔ اس کے بعد اس فہرست میں شام، وینزویلا، یوکرین، فلسطینی علاقے، جنوبی سوڈان، سوڈان، میانمار، عوامی جمہوریہ کانگو اور صومالیہ ہیں۔
زیادہ تر مہاجرین ہمسایہ ممالک کا ہی رخ کرتے ہیں
یو این ایچ سی آر کی اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار تئیس کے اختتام تک غیر ممالک کا رخ کرنے والے مجموعی مہاجرین میں سے 69 فیصد ہمسایہ ممالک میں ہی پناہ حاصل کیے ہوئے تھے۔
ایران، ترکی، کولمبیا اور اردن میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد موجود ہے۔ ان ممالک میں پناہ لیے ہوئے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق افغانستان، شام، وینزویلا اور فلسطینی علاقوں سے ہے۔
جرمنی اپنی مثال آپ ہے، جہاں یوکرین، شام، افغانستان، عراق اور اریٹریا جیسے دور دراز کے ممالک سے لاکھوں تارکین وطن افراد کو پناہ دی گئی ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں غیر متناسب تعداد
یورپی یونین رکن ممالک میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی تعداد جرمنی میں ہے، جو تقریبا پچیس لاکھ بنتی ہے۔ تاہم دوسری طرف جرمنی نے ایران، ترکی، اردن اور کولمبیا کے مقابلے میں انتہائی کم مہاجرین کو پناہ دی ہے۔
تقریبا گیارہ ملین آبادی والے ملک اردن میں پناہ گزینوں کی تعداد تین ملین ہے، جن میں سے زیادہ تر فلسطینی علاقوں سے بے گھر ہو کر وہاں رہنے پر مجبور ہیں۔
آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک میں اردن سرفہرست ہے۔
اسی طرح افریقی ملک چاڈ ایک غریب ملک ہے لیکن وہاں پناہ گزینوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہے۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو دنیا کا انتہائی کم ترقی یافتہ یہ ملک جرمنی سے دو گنا زیادہ مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔
پناہ کی درخواستوں پر پیشرفت میں مسائل
تسلیم شدہ مہاجرین اور داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے علاوہ سات لاکھ افراد ایسے بھی ہیں، جنہوں نے پناہ کی درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں یا جن کی ایسی اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق جس رفتار سے پناہ کی درخواستیں دائر کی جا رہی ہیں، اس رفتار کے جواب میں ان درخواستوں پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہے۔
سن 2023 میں عالمی سطح پر پناہ کی چودہ لاکھ درخواستوں پر فیصلے کیے گئے لیکن ساتھ ہی چھپن لاکھ نئی درخواستیں بھی موصول ہوئیں۔
نئی درخواستوں اور ان پر فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے دربدر لوگ قانونی پیچیدگیوں میں پھنس جاتے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس عمل کو تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دربدر لوگوں کی غیر محفوظ ممالک میں واپسی
سن 2023 میں پناہ کے متلاشی تقریبا گیارہ لاکھ افراد کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے انہیں ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا گیا، حالانکہ ان کے آبائی ممالک یا خطوں کے حالات غیر محفوظ ہی تھے۔
کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جو مسلح تنازعات کے باوجود اپنے ممالک لوٹ گئے، ان میں یوکرینی شہری بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تاریخ
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آمد سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد شروع ہوئی۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر (اوچا) کے مطابق سن 1981 تک ان کی تعداد 20 لاکھ اور 1990 تک 32 لاکھ ہو چکی تھی۔ سوویت یونین کی واپسی کے بعد 1990 کی دہائی میں افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران بھی پناہ گزین پاکستان آتے رہے۔
سن 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا رخ کرنے والے افغان باشندوں کی مجموعی تعداد 50 لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ سن 2002 میں طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد تقریباً 15 لاکھ افغانوں کی اپنے وطن واپسی ہوئی اور 2012 تک یہ تعداد 27 لاکھ تک جا پہنچی۔
آئندہ دس برس میں وقتاً فوقتاً مزید افغان شہری اپنے ملک واپس جاتے رہے۔ سن 2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہونے کے بعد تقریباً سات لاکھ افغانوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں پناہ لی۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق ستمبر سن 2023 تک پاکستان میں تقریبا اکتیس لاکھ افغان شہری مقیم تھے۔
روڈریگو منیگاٹ شوَنسکی ( ع ب ، ش ر)