14 سابق طالبان کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم
16 جولائی 2011بلیک لسٹ سے خارج کیے جانے والوں میں صدر حامد کرزئی کی قائم کردہ اُس امن کونسل کے متعدد ارکان بھی شامل ہیں، جسے باغیوں کے ساتھ مذاکرات کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ ان ارکان میں طالبان دور کے ہائر ایجوکیشن کے سابق نائب وزیر ارسلان رحمانی دولت، سعودی عرب میں طالبان کے ایک سابق سفارتکار حبیب اللہ فوضی، طالبان دور کے معدنیات اور صنعتوں کے سابق نائب وزیر سعید الرحمان حقانی اور فقیر محمد شامل ہیں۔
ان ناموں کے اخراج کے لیے افغان حکومت نے ایسی جامع دستاویزات فراہم کیں، جن سے ثابت ہوتا تھا کہ یہ سابق طالبان عسکریت پسندی کی راہ ترک کر چکے ہیں، پھر سے معاشرے میں لوٹ چکے ہیں اور معمول کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
اعلیٰ امن کونسل گزشتہ سال ستمبر میں قائم ہوئی تھی اور اس کے ارکان کی کُل تعداد 70 ہے۔ اقوام متحدہ میں جرمنی کے سفارتی مشن نے بتایا ہے کہ خصوصی پابندیوں کی حامل فہرست سے ان سابق طالبان کے ناموں کے اخراج کا مقصد طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار کرنا ہے۔ واضح رہے کہ جرمنی اپنی باری کے اعتبار سے اس مہینے سلامتی کونسل کی صدارت کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔
جہاں حامد کرزئی کے دفتر کی جانب سے اس کونسل کے قیام کو امن کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے، وہاں طالبان اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے بدستور یہ کہتے ہوئے مسترد کر رہے ہیں کہ پہلے تمام غیر ملکی فورسز کو افغانستان سے جانا ہو گا۔
اقوام متحدہ میں جرمنی کے سفیر پیٹر وٹک نے ایک بیان میں کہا کہ سلامتی کونسل کا یہ اقدام ’یہ واضح اور مستحکم پیغام دے رہا ہے کہ سلامتی کونسل اور بین الاقوامی برادری افغانستان میں امن و سلامتی کے لیے طالبان کے ساتھ مفاہمت اور سیاسی مکالمت کی حکومتی پالیسی کی تائید و حمایت کرتی ہے‘۔
ابھی چار ہفتے قبل سلامتی کونسل نے اُس مشترکہ فہرست کی بجائے، جس میں طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والوں کے نام اکٹھے درج کیے جاتے تھے، ان دونوں گروپوں سے وابستہ افراد کی الگ الگ فہرستیں بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جمعے کے تازہ فیصلے سے قبل طالبان کی فہرست میں 137 نام شامل تھے، جن پر نہ صرف سفر کی پابندیاں عائد تھیں بلکہ اُن کے اثاثے بھی منجمد تھے۔
گزشتہ مہینے سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا تھا کہ اگر نیٹو اتحاد باغیوں پر دباؤ برقرار رکھے اور فوجی لحاظ سے کامیاب پیشقدمی کرتا رہے، تو اس سال کے آخر تک طالبان کے ساتھ سیاسی بات چیت عمل میں آ سکتی ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف توقیر