احمد ولی کی ہلاکت سے جنوبی افغانستان میں قیادت کے فقدان کا خدشہ
13 جولائی 2011قندھار کی صوبائی کونسل کے 50 سالہ سربراہ احمد ولی کرزئی کو گزشتہ روز ان کے ایک محافظ نے گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ طالبان نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے اہم کامیابی قرار دیا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’ میرے چھوٹے بھائی کو گھر میں شہید کیا گیا، یہی افغان عوام کی زندگی ہے، مجھے امید ہے کہ یہ مصیبتیں، جو افغان عوام جھیل رہے ہیں ایک دن ختم ہوجائیں گی۔‘‘
افغانستان کی پارلیمان کے ایک رکن میروائیس یاسینی نے احمد ولی کرزئی کی ہلاکت کو قندھار کے عوام کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ٹہرایا۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے صدر حامد کرزئی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ان کے بقول، ’’ افغان عوام نے بہت لمبے عرصے سے تشدد، عدم برداشت اور انتہا پسندی جھیلی ہے، ہم قیام امن کے لیے صدر کرزئی کی دعا میں اُن کے ساتھ ہیں، ہم قیام امن کے لیے افغان حکومت و عوام کی جدوجہد میں ساتھ دینے کے لیے پر عزم ہیں۔‘‘
افغانستان متعین نیٹو اور امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے احمد ولی کرزئی کے قتل کو صدر کرزئی کے لیے ایک سانحہ قرار دیا۔ جنرل پیٹریاس کے بقول سلامتی کی بین الاقوامی معاون فورس ISAF قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے افغان حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔
افغان امور کے ماہرین کی اکثریت کا موقف ہے کہ چونکہ احمد ولی کرزئی شورش زدہ جنوبی افغانستان کے چار صوبوں میں انتہائی طاقتور حیثیت رکھتے تھے لہذا اب وہاں حکومتی انتظام کمزور ہوسکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب جنوبی افغانستان کے چاروں صوبوں، قندھار، فراح، ہلمند اور اروزگان میں کوئی ایسی طاقت ور شخصیت موجود نہیں جو طالبان کے مقابلے میں مرکزی حکومت کے لیے احمد ولی جیسا فعال کردار ادا کرسکے۔
پاکستانی صحافی احمد رشید کا کہنا ہے کہ احمد ولی کرزئی بنیادی طور پر پورے جنوبی افغانستان کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے اور ان کی ہلاکت کے بعد وہاں قیادت کا خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ بروکنگ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ مائیکل او ہانلون کا کہنا ہے کہ احمد ولی کرزئی کی ہلاکت کے بعد علاقے میں صورتحال کے مزید پیچیدہ ہونے کا امکان موجود ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق