14پاکستانی سکیورٹی اہلکار ٹینک کا گولہ پھٹنے سے ہلاک
29 مارچ 2011اطلاعات کے مطابق تحصیل باڑہ کے علاقہ اکا خیل میں سکیورٹی فورسز کا ایک قافلہ معمول کے گشت پرتھا کہ اس دوران عسکریت پسندوں نے ان پر حملہ کیا۔
اطراف کے مابین کئی گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ فائرنگ کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی الٹ گئی۔ فائرنگ کی زد میں آنے کی وجہ سے اس میں مزید اہلکار جاں بحق ہوئےجبکہ تین گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔
ابتدائی رپورٹوں کے برعکس سکیورٹی فورسز نے بعدازاں بتایا کہ یہ واقعہ فائرنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ سکیورٹی فورسز کے ٹینک کا گولہ پھٹنے کی وجہ سے پیش آیا ۔
پشاور میں مرنے والوں کے جنازے کے بعد کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل یاسین ملک کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ اس وقت تک جاری رہی گی جب تک ان کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز کو علاقے میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی جس پر وہ ان کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ نماز جنازہ کے بعد مرنے والوں کی میتیں ان کے آبائی علاقے روانہ کردی گئ ہیں۔
خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سینٹر محمد شاہ آفریدی نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ، ’’ہم علاقے میں بار بار آپریشن کے حق میں نہیں ہیں جنگ سے مسائل کبھی حل نہیں ہوسکتے۔
آج امریکہ بھی افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتا ہے۔ اگر وہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کر رہے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔ ہم قبائلی تو بڑے بڑے مسائل جرگوں کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ تو اس کا بھی حل نکا ل سکتے ہیں۔ میں بذات خود اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں ملک اور قوم کے لیے جان کی قربانی دینے کی ضرورت پڑی تو اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔
معاشرے کے عام لوگ بھی آئے روز دہشت گردی کے واقعات سے تنگ آچکے ہیں اور وہ حکومت اور سیاسی جماعتوں سے پائیدار امن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نیشنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو تحسین اللہ خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’قبائلی علاقوں میں دہشت گردی میں اضافہ پورے خطے کےلیے باعث تشویش ہے۔ قبائلی علاقے اور خیبر پختونخواکی معیشت پہلے سے تباہ حال ہے۔
اس صورتحال کو سیلاب نے مزید خراب کر دیا۔ اب عوام اس جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔ صوبے میں ایک سینئر سیاستدان گورنر بن چکے ہیں۔ اب عوام نے ان سے امیدیں وابستہ کی ہیں کہ وہ سیاسی لوگوں کو اکھٹا کرکے قبائلی علاقوں کے مسائل کا حل نکالنے کےلیے موثر اقدامات اٹھائیں ہوں گے۔‘‘
یکم ستمبر 2009سے سکیورٹی فورسز نے خیبر ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کے دوران ہونے والےجانی نقصانات میں آج کا جانی نقصان سب سے بڑا ہے۔ قبل ازیں سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں 170مشکوک افراد کوحراست میں لے لیا۔
رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور
ادارت: عصمت جبیں