2 جون سے کابل میں سہ روزہ امن جرگہ
1 جون 2010اِس جرگے کا اصل مقصد طالبان کے ساتھ مفاہمت کے سلسلے میں ایک قطعی منصوبے کا تعین کرنا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی اِس جرگے کے ذریعے اپنے ملک میں پائیدار امن کا سنگِ بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ برس کے اوائل ہی میں افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مفاہمت اور افغانستان میں جنگ کی صورتِ حال کا خاتمہ اُن کی اولین سیاسی ترجیح ہے، جس کے حصول کے لئے افغان روایات کے مطابق امن جرگہ منعقد کیا جائے گا۔
ملک کے اندر اور باہر اپنے ساتھیوں کو اِس مقصد کی افادیت کا قائل کرنے میں کرزئی کو ڈیڑھ برس لگ گیا۔ اِس جرگے میں کن لوگوں کو مدعو کیا جائے گا، اِس حوالے سے افغان صدر نے کہا تھا:’’بہت جلد کابل میں قومی سلامتی کا جرگہ منعقد کیا جائے گا، جس میں با اثر قبائلی سردار، علماء، محققین، دانشور اور ہماری بہت سی بہنیں بھی شریک ہوں گی۔ یہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہء خیال کریں گے کہ کیسے ہم اپنے بھائیوں کو پھر سے معاشرے کا ایک حصہ بنا سکتے ہیں۔‘‘ صدر کرزئی نے داخلی سیاسی سطح پر اپنے اِس اہم ترین منصوبے کی مزید تفصیلات نہیں بتائی تھیں۔
تفصیلات طے کرنے کی ذمہ داری فاروق وردگ کے پاس ہے، جو صدر کرزئی کے قریبی ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ وزیر تعلیم بھی ہیں۔ وردگ کہتے ہیں کہ اِس قومی امن جرگے کا مقصد ا یک ایسے عمل کا آغاز کرنا ہے، جس کے نتیجے میں تمام حریفوں کے ساتھ افہام و تفہیم حاصل کی جا سکے۔ وردگ کہتے ہیں:’’جب ہم حریفوں کے ساتھ مفاہمت کی بات کرتے ہیں، تو اِس میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم کس بات پر افہام و تفہیم کے خواہاں ہیں، کس کے ساتھ افہام و تفہیم چاہتے ہیں اور کب اور کیسے چاہتے ہیں؟ اِس جرگے سے ہماری دوسری توقع یہ ہے کہ حریفوں کے ساتھ مفاہمت کے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے سلسلے میں ایک واضح طریقہء کار طے کیا جائے۔‘‘ وردگ مزید کہتے ہیں کہ اِس جرگے میں فیصلے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں بلکہ افغان قوم کے پاس ہے۔ تاہم افغان وزیر تعلیم اِس بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں کہ پہلے سے ہی اڑتیس صفحات پر مشتمل ایک دستاویز تیار کی جا چکی ہے، جس میں یہ طے ہو چکا ہے کہ کابل حکومت طالبان کو کیا کیا کچھ تجویز کرنے والی ہے۔
اِس دستاویز کے مطابق طالبان انتہاپسندوں کو سزاؤں سے معافی کی یقین دہانی کروائی جائے گی، طالبان یا حزبِ اسلامی کے سربراہان کو جلاوطنی اختیار کرنے کی پیشکش کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ القاعدہ سے علٰیحدگی اختیار کر لیں۔ دوسری طرف طالبان اب تک کسی بھی قسم کے مذاکرات کی پیشکش کو سختی سے رَد کر تے رہے ہیں۔ سلامتی کے امور کے ماہر واحد موجدہ کے مطابق اِس کے باوجود بھی اگر کرزئی یہ امن جرگہ منعقد کرنے جا رہے ہیں تو اِس کے پیچھے کچھ سیاسی وجوہات کارفرما ہیں۔ اُن کے مطابق جرگے کے نتائج کچھ بھی رہیں، افغان صدر ہر طرح سے فائدے میں رہیں گے:’’داخلی سیاسی سطح پر وہ یہ دکھا سکیں گے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اُن کا حامی ہے۔ بیرونی دُنیا میں اپنے ساتھی ملکوں کو وہ یہ دکھا سکتے ہیں کہ افغان قوم اب مزید جنگ نہیں چاہتی۔‘‘ اگر باغی، حامد کرزئی کی تجاویز کو قبول نہیں کرتے تو پھر آئندہ کابل حکومت کو نہیں بلکہ اُنہیں افغانستان میں جنگ جاری رہنے کا ذمہ دار تصور کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ کرزئی، جو ملک کی ابتر صورتِ حال اور متنازعہ صدارتی انتخابات کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے کے باعث تنقید کی زَد میں ہیں، ایک بار پھر سیاسی طور پر بہتر پوزیشن میں آ جائیں گے۔
اِس جرگے کے ذریعے وہ خود کو امن کے خواہاں سیاستدان کے طور پر پیش کر سکیں گے۔ تاہم موجدہ کہتے ہیں کہ صرف اِس جرگے کے ذریعے اُنہیں ملک کے گمبھیر مسائل حل کرنے میں مدد نہیں مل سکے گی۔ لوگ سلامتی، بدعنوانی اور منشیات جیسے سنگین مسائل کے ٹھوس حل چاہتے ہیں۔ واحد موجدہ کے مطابق کوئی ’یکطرفہ جرگہ‘ افغانستان کے عوام کو مطمئن نہیں کر سکے گا۔
رپورٹ: رتبیل شامیل / امجد علی
ادارت: عابد حسین