’20 سال بعد اعلیٰ امریکی عہدیدار یمن میں‘
11 جنوری 2011امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن غیر اعلانیہ دورے پر منگل کی سہ پہر یمن پہنچیں۔ ہلیری کلنٹن کا کہنا ہے کہ یمن کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اب محض عسکری شعبے تک محدود نہیں رہیں گے۔
ان کے بقول امریکہ چاہتا ہے کہ اس عرب ریاست کو لاحق گو نا گو مسائل کے حل میں تعاون کرے۔ امریکی وزیر خارجہ نے یمن پہنچنے پر کہا کہ اُن کا ملک یمن اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے میں شراکت کر رہا ہے۔
مغربی ممالک کی رائے میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم اب جزیرہ نما عرب میں زور پکڑ رہی ہے۔ یہ سوچ 2009ء میں کرسمس کے موقع پر اس واقعے کے بعد مزید گہری ہوئی جبکہ مبینہ طور پر یمن کے ایک شہری نے ڈیٹرائٹ پہنچنے والی پرواز میں بم دھماکہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
یمن پہنچے پر کلنٹن کو سلامتی کے کڑے حصار میں صدر علی عبد اللہ صالح کے محل لے جایا گیا۔ ثنا میں امریکی سفارتخانے نے بتایا کہ کلنٹن کا یہ دوہ نصف دن کا ہے جس کا مقصد یمن کو طویل مدتی شراکت کا پیغام دینا ہے۔ القاعدہ کے ساتھ ساتھ یمن کے استحکام کو لاحق دیگر شدید نوعیت کے مسائل میں شمالی حصے میں برسرپیکار حکومت مخالفین، جنوب کے علیحدگی پسندوں کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب سے ملحق اس ملک میں قدرتی تیل کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں جبکہ پینے کے پانی کی کمیابی اور معاشی مشکلات بھی صورتحال کو سنگین بنارہی ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہاں کے حکمران علی عبد اللہ صالح گزشتہ تین عشروں سے اقتدار پر براجمان ہیں۔
واشنگٹن حکومت گزشتہ سال یمن کو عسکری شعبے کے لئے 170 ملین جبکہ عوامی بہبود کے لئے 130 ملین ڈالر فراہم کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان میں بھی نئی امریکی پالیسی کے تحت عسکری امداد کے ساتھ ساتھ عوامی بہبود کے منصوبوں کے لئے بھی نمایاں امداد دی جارہی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن پانچ دن تک خلیجی ممالک کے دوروں میں مصروف رہیں گی۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : امتیاز احمد