2009: دُنیا بھر میں 76 صحافی ہلاک ہوئے
30 دسمبر 2009صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے مطابق کمزور جمہوری معاشروں میں قلم اور کیمرے کے لئے حالات اور بھی مشکل رہے۔
'رپوٹرز وِد آؤٹ بارڈرز' کا کہنا ہے کہ رواں برس پرتشدد واقعات میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2009ء میں دُنیا بھر میں 76 صحافی ہلاک ہوئے جبکہ 2008ء میں یہ تعداد 60 تھی۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز RSF کے مطابق رواں برس جنگیں اور انتخابی عمل صحافیوں کے لئے سب سے بڑے خطرے رہے۔ تنظیم کے سیکریٹری جنرل Jean-Francois Julliard کا کہنا ہے کہ کمزور جمہوریت والے ممالک میں انتخابات سے پہلے اور بعد کے دنوں میں صحافیوں کو بالخصوص تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سال ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے اغوا کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس 29 صحافی اغوا ہوئے جبکہ رواں برس یہ تعداد 33 رہی۔ 2008ء کے 929 کے مقابلے میں اس سال 1456صحافیوں پر حملے ہوئے یا پھر انہیں دھمکیاں ملیں۔ بلاگرز کے خلاف سنسر کی کارروائیاں گزشتہ برس کے 59 واقعات کے مقابلے میں اس سال 151رہیں۔
آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ 2009ء میں انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے حوالے سے پابندیوں میں اضافہ ہوا، جن سے 60 ممالک متاثر ہوئے۔ پچھلے سال یہ تعداد 37 تھی۔ تنظیم کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ معلومات کی ترسیل میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس اور موبائل فون جب بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں،تو اس کے نتائج بھی سخت برآمد ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں برس صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کشیدہ حالات کی وجہ سے اپنے ملک چھوڑ گئے، جو اس دوران سب سے تشویشناک بات رہی ہے۔ ایسے ممالک میں ایران اور سری لنکا قابل ذکر ہیں۔ ایران میں جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات متنازعہ رہے۔ وہاں اپوزیشن کی جانب سے انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات کے بعد پرتشدد واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔
سری لنکا میں فوج نے پچیس سال بعد گو کہ تامل باغیوں کے خلاف جنگ جیت لی، لیکن اس سے تامل مہاجرین کے مسائل پیدا ہو گئے، جو ابھی بھی حل طلب ہیں۔
Julliard کے مطابق ان ممالک کے حکام کا ماننا ہے کہ صحافیوں کے ملک چھوڑنے سے حکومت پر تنقید کے واقعات میں کمی ہوگی۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نامی تنظیم کے صدر دفاتر فرانس میں ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک