1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2015ء: پاکستان 324 پھانسیوں کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر

امجد علی18 فروری 2016

حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم گروپوں کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سن 2015ء کے دوران جن تین سو چوبیس افراد کو پھانسی پر لٹکایا گیا، اُن کی بڑی تعداد کا عسکریت پسند گروپوں یا دہشت گردانہ حملوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/1HxRA
Symbolbild Selbstmord
تصویر: vkara - Fotolia.com

نیوز ایجنسی روئٹرز نے یہ رپورٹ حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم گروپوں کی مرتب کردہ تفصیلات دیکھنے کے بعد جاری کی ہے۔ ایک سال میں 324 افراد کی موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کے ساتھ پاکستان دنیا بھر میں اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔

روئٹرز نے لکھا ہے کہ پاکستان میں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کئی سال سے رُکا ہوا تھا تاہم جب دسمبر 2014ء میں دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا اور وہاں 134 کمسن طالب علموں کے ساتھ ساتھ اُنیس بالغ افراد کو بھی ہلاک کر دیا تو عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے موت کی سزاؤں پر عملدرآمد پھر سے بحال کر دیا گیا۔

روئٹرز نے جس رپورٹ کا حوالہ دیا ہے، وہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک بین الاقوامی گروپ ’ریپریو‘ اور ’جسٹس پروجیکٹ پاکستان‘ نے مل کر جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق موت کی سزاؤں کی بحالی کے فیصلے کے بعد سے اب تک 351 افراد کو پھانسی دی گئی ہے، جن میں سے صرف اُنتالیس ایسے تھے، جن کے بارے میں یہ معلوم تھا کہ وہ کسی عسکریت پسند گروپ سے تعلق رکھتے ہیں یا عسکریت پسندی سے جڑے جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2015ء میں 324 افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا اور اس اعتبار سے پاکستان میں چین اور ایران کے بعد سب سے زیادہ تعداد میں انسانوں کو پھانسیاں دی گئیں۔

یہ رپورٹ میڈیا رپورٹوں اور عدالتوں، قیدیوں اور قانونی ٹیموں سے اکٹھے کیے گئے کوائف کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن افراد کو پھانسی پر لٹکایا گیا، اُن میں نابالغ اور ذہنی طور پر معذور افراد کے ساتھ ساتھ ایسے قیدی بھی تھے، جن پر تشدد کیا گیا یا جن کے مقدمات کی کارروائی شفاف نہیں تھی۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی گروپ ’ریپریو‘ کی نمائندہ خاتون مایا فوآ نے کہا:’’اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی حکومت کے دعوے حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جن لوگوں کو پھانسی دی جاتی ہے، اُن میں سے اکثر غریب اور کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو اس طرح سے پھانسیوں پر لٹکانے سے پاکستان محفوظ کیسے ہو گا۔‘‘

Pakistan Hinrichtung von Aftab Bahadur
دس جون 2015ء کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قتل کے جرم میں پھانسی پانے والے آفتاب بہادر کی بہن اُس کی میت کے پاس کھڑی رو رہی ہے، وکلاء کے مطابق آفتاب بہادر کو پندرہ سال کی عمر میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور اُس سے تشدد کے ذریعے اقبالِ جرم کروایا گیا تھاتصویر: Reuters/M. Raza

روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے حوالے سے حکومت کا مؤقف جاننے کے لیے پاکستانی وزارتِ داخلہ سے رابطہ کیا گیاتھا تاہم وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔

حکومتِ پاکستان نے شروع میں یہی کہا تھا کہ پھانسی کی سزا صرف اُن کیسز کے لیے بحال کی گئی ہے، جن کا تعلق عسکریت پسندی سے ہو گا تاہم بعد میں اس کے دائرے میں تمام دیگر کیسز بھی شامل کر دیے گئے۔ جہاں پوری دنیا میں ان سزاؤں کی مذمت کی جا رہی ہے، وہاں ملک کے اندر ان سزاؤں کو وسیع تر عوامی حمایت حاصل ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید