1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2019ء پاکستانی سنیما کے لیے مایوس کُن سال

حسن کاظمی کراچی
31 دسمبر 2019

سال 2019ء پاکستانی سنیما کے لیے بڑی حد تک مایوس کُن رہا اور بالی وُڈ فلموں کی غیر موجودگی میں سنیما گھروں کو چلانے کا مشکل مرحلہ دشوار تر ہوتا گیا۔

https://p.dw.com/p/3VXWa
Bildergalerie: Bollywood - Kinoposter in Rawalpindi
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

اس دشواری کے باعث جہاں پہلے مرحلے میں سنیما ملازمین کی چھانٹی ہوئی، اب بات جزوی طور پر بندش تک آپہنچی ہے۔

اطلاعات کے مطابق پنجاب میں چند ملٹی پلیکس نے اپنی کچھ اسکرینز بند کردی ہیں جبکہ مواد نہ ہونے کے سبب سنیما میں شو بھی خاصے محدود کردیے گئے ہیں۔

اگر موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیں تو 2007ء میں ہونے والا پاکستانی سنیما کے احیاء کا بیڑہ اب غرق ہوتا نظر آ رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں1965ء سے بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی عائد ہے اور یہ فلمیں پاکستان میں ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں شمار ہوتی ہیں۔

2007ء میں پاکستان کی حکومت نے ایک پالیسی بنائی تھی جس کے تحت بالی وُڈ فلموں کو پاکستان میں نمائش کے لیے خصوصی استثنٰی یا این او سی جاری کیا جاتا تھا جس کے بعد وہ فلم پاکستان میں درآمد کی جاتی تھی اور پھر اسے سینسر بورڈ منظور کرتا تھا۔

حکومت کی بنائی اس پالیسی کا پاکستانی سنیما پر مثبت اثر پڑا اور پاکستان میں نئے سنیما گھر تعمیر ہونے لگے اور اسکرینز کی تعداد دو درجن سے بڑھ کر 160 تک پہنچ گئی۔

پاکستانی سنیما اپنے نئے جنم کے آغاز ہی سے بھارتی فلموں پر انحصار کرتا آیا ہے اور سال بھر میں ایک بالی وڈ فلم کا بزنس اکثر کئی پاکستانی فلموں کے مجموعی بزنس سے زیادہ ہی ہوجاتا ہے۔ تاہم دونوں ملکوں میں جاری تنازعات اکثر بالی وڈ فلموں کی پاکستان میں نمائش کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہتے ہیں۔

پاکستانی سینما گھر بھارتی فلموں کے بغیر ویران

2019 ء میں14  فروری کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کا شکار ایک مرتبہ پھر فلم اور سنیما ہی بنے۔

اس حملے کے بعد بھارتی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے اپنی حکومت کی طرح ان حملوں کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اپنی فلمیں پاکستان میں نمائش کے لیے دینے سےانکار کر دیا۔ اگرچہ اس مرتبہ پاکستان نے کوئی فوری رد عمل نہیں ظاہر نہیں کیا مگر 26 فروری کو بھارت کی جانب سے بالاکوٹ میں مبینہ فضائی حملے کے بعد پاکستانی سنیما مالکان کی تنظیم نے اس وقت کے وزیراطلاعات فواد چوہدری سےبات کر کے بالی وڈ کابائیکاٹ کردیا۔

تب اسے اب تک پاکستانی سنیما انڈسٹری ایک کھٹن وقت سے گزر رہی ہے اور سنیما جانے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ مانڈوی والا اینٹرٹینمنٹ کے سربراہ ندیم مانڈوی والا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہالی وڈ کی فلمیں صرف بڑے شہروں ہی میں محدود پیمانے پر چلتی ہیں اور چھوٹے شہروں میں ان کی کوئی مارکیٹ نہیں ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی اپنی فلمی صنعت میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ سنیما کو ہر ہفتے ایک فلم دے سکے۔ اگر 2019ء کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پرصرف21  فلمیں ہی نمائش کے لیے پیش ہوئیں، جن میں سے دو عید الفطر اور تین عید الاضحٰی پر ریلیز ہوئیں۔

Schauspielerin Meera
باجی، چھلاوہ اور شیر دل جیسی فلموں نے 10 کروڑ سے اوپر کمائے۔ تصویر: Getty Images/AFP/STR

ان21  فلموں میں سے صرف تین فلمیں 'سپراسٹار‘، 'پرے ہَٹ لوّ‘ اور 'رانگ نمبر 2 ‘ نے 20  کروڑ سے اوپر کا کاروبار کیا جبکہ چھلاوہ، باجی، شیر دل نے 10 کروڑ سے اوپر کمائے۔ یعنی15 فلمیں باکس آفس پر کم از کم پیسے کمانے میں ناکام رہیں جن میں 'لال کبوتر‘ بھی شامل ہے حالانکہ اسے متعدد بین الاقوامی ایوارڈ مِل چکے ہیں اور اسے ناقدین نے پاکستان میں بھی بہت سراہا تھا۔

یادرہے کہ کسی فلم کی باکس آفس پر کامیابی کا پیمانہ اس کے منافع سے ہوتا ہے اور فلم پروڈیوسر کو فلم کی کمائی کا صرف30  سے 35 فیصد ہی وصول ہوتا ہے۔ یعنی فلم کی لاگت اور کمائی میں تین ایک کا تناسب ہو تب بھی فلم منافع میں نہیں ہوتی۔

سنیما کی اس دگرگوں صورتِ حال پر ڈی ڈبلیو نے پاکستان کی فلمی صنعت سے جڑے افراد سے گفتگو کی اور ان کے سامنے تین سوال رکھے؛

1۔ کیا بالی وُڈ کی غیر موجودگی میں پاکستانی سنیما بچ سکتا ہے؟

2۔ پاکستانی عوام نے2019ء میں ریلیز ہونے والے زیادہ تر فلمیں کیوں مسترد کیں؟

3۔ بالی وڈ کی غیر موجودگی میں پاکستانی سنیما کو کیسے رواں رکھا جاسکتا ہے؟

پاکستان کے معروف گلوکار، اداکار اور پروڈیوسر علی ظفر نے جو خود بالی وڈ کی کئی فلموں میں کام کرچکے ہیں، اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے کہا، '' سچ یہی ہے جو ہم نے متعدد بار دیکھا کہ جب بھی بالی وڈ فلمیں سنیما میں نہیں لگتیں پاکستانی سنیما کا کاروبار بری طرح متاثر ہوتا ہے اور یہ صرف رائے نہیں بلکہ حقیقت ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ عوام سنیما تفریح کے لیے جاتے ہیں، وہ اپنا وقت اور پیسہ خرچ کرتے ہیں اور انہیں پوری وصولی چاہیے ہوتی ہے: ''جب بھی کوئی فلم اس معیار پر پورا نہیں اترتی، وہ مسترد کردی جاتی ہے۔ یہ عوام کا نہیں فلم بنانے والوں کا قصور ہے کہ ان کی فلمیں عوام مسترد کررہے ہیں۔‘‘

Pakistan Kino in Lahore
’پاکستان میں کچھ لوگوں نے بالی وُڈ کا چربہ بناکر اسے سنیما کے نام پر بیچا، جسے پاکستان کی عوام نے مسترد کردیا۔‘تصویر: DW/T. Shahzad

پاکستان میں سنیما کی بحالی کے سلسلے میں علی ظفر کے پاس کافی تجاویز ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال کا کوئی فوری حل نہیں ہے: ''اگر ہم آج کام شروع کرتے ہیں تو بھی اس صنعت کو خودانحصاری حاصل کرنے میں کم از کم دس سال لگیں گے جب کہیں جاکر سرمایہ کاروں کو منافع ہوگا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ٹیکس میں چھوٹ دے بلکہ مکمل طور پر حوصلہ افزائی بھی کرے۔‘‘

علی ظفر نے واضح کیا کہ اس وقت سائنسی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور جذبات کے بجائے عقل و منطق سے کام لیا جائے۔ اس وقت فلمی صنعت سے متعلق ہر شخص کو ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے نا کہ ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہونے کی، اگر ایسا نہیں ہوتا تو سنیما کو بھول جائیں۔

ایم ڈی پروڈکشنز کی مومنہ درید نے ڈی ڈبلیو سے کہا، ''پاکستانی سنیما بالی وڈ کے بغیر بالکل چل سکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں گاؤں گاؤں چھوٹے اور سستے سنیما گھر قائم کرنا ہوں گے کیونکہ پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہے اور ہم اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ملٹی پلیکسز کی ٹکٹ عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوچکے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ جس دن سنیما عام آدمی کی پہنچ میں آجائے گا فلم ساز بھی پیسے کمانا شروع کردیں گے۔

فلم ساز، اداکار اور پروڈیوسر ہمایوں سعید نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو اس مرتبہ تو پاکستان نے بالی وُڈ کی فلموں پر پابندی نہیں لگائی تھی بلکہ اُن کی جانب سے پاکستان کو فلمیں دینے سے انکار کیا گیا تھا جس کے بعد پھر پاکستان نے بھی پابندی عائد کردی۔ ان کا کہنا تھا: ''اب پاکستان کو بھارت پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کہ ضرورت ہے اور پاکستانی سنیما کو رواں رکھنے کے لیے اس وقت ضروری ہے کہ ہر پروڈیوسر نا صرف تین تین فلمیں بنائے بلکہ اچھی فلمیں بنائے۔‘‘

Filmstill My Pure Land
''یہ حقیقی کہانیاں فلمانے کا وقت ہے خاص کر وہ کہانیاں جو ہماری تاریخ اور ثقافت سے جُڑی ہوں۔‘‘تصویر: Bill Kenwright Films

پاکستانی فلم مولا جٹ کی پروڈیوسر عمارہ حکمت کی رائے میں بالی وڈ کی غیر موجودگی میں پاکستانی فلمی صنعت کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں وقت لگے گا۔ ان کے خیال میں، ''حقیقی کہانیاں فلمانے کا وقت ہے خاص کر وہ کہانیاں جو ہماری تاریخ اور ثقافت سے جُڑی ہوں۔ پاکستان میں کچھ لوگوں نے بالی وُڈ کا چربہ بناکر اسے سنیما کے نام پر بیچا، جسے پاکستان کی عوام نے مسترد کردیا۔‘‘

عمارہ حمکت نے بتایا کہ پاکستانی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے حکومتِ پاکستان کو بہت سی تجاویز دی ہیں جن میں علاقائی زبانوں کی فلمیں درآمد کرنا بھی شامل ہے اور اس سلسے میں کوششیں کی جا رہی ہیں۔

معروف ہدایتکار جمشید محمود عرف جامی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی سنیما کے لیے ہمیں اصل کہانی چاہیے جس کی پروڈکشن معیاری ہو اور عصرِ حاضر سے مطابقت رکھتی ہو: ''بالی وڈ کی بی کلاس فلموں کی نقالی کر کے پاکستانی سنیما نہیں چلایا جاسکتا۔ عوام بے وقوف نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی فلمیں زیادہ تر بالی وڈ کا چربہ ہوتی ہیں۔‘‘ جامی کا مزید کہنا ہے، ''کم بجٹ کی اچھی فلمیں بنانے کی ضرورت ہے جبکہ سنیما گھروں کو اپنے ٹکٹ کی قیمت بھی کم کرنا ہو گی۔ اگر کم بجٹ کی اچھی فلم چلتی ہے اور تھوڑا منافع بھی کما لیتی ہے تو اس منافع سے اگلی فلم بنائی جاسکتی ہے اور یہ سلسلہ چل سکتا ہے۔‘‘

اس بارے میں معروف مصنف اسماء نبیل نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سنیما اگرچہ بہت مشکل سے ہی، اب تک چل ہی رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''بھارتی، ایرانی یا کورین سنیما کیوں کہیں جبکہ فن اور ثقافت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اگر تکنیکی طور پر دیکھیں تو اب نیٹ فیلکس اور امیزون کا زمانہ ہے۔‘‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سنیما کو آگے دیکھنا ہوگا، خاص کر سنیما کے ٹکٹ کی قیمتیں عوام کی قوت خرید کو مدِ نظر رکھ کر متعین کرنا ہوں گی جبکہ حکومت کو بھی پاکستانی فلموں کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دینا ہوگا۔

پاکستانی فلم وينس فلم فيسٹول ميں ايوارڈ کی حقدار

پاکستانی فلموں کے مسترد کیے جانے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ سخت لفظ ہے ہاں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں ، مشکل وقت ہے: ''ہماری کہانیاں بہت طاقت رکھتی ہیں اور ہمیں اپنی توجہ اسی پر مرکوز رکھنا ہوگی جس سے صورتِ حال بہتر ہوجائے گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت، سنیما مالکان، ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز کو ساتھ مِل کر ایک مربوط حکمتِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

اسماء نبیل کے مطابق ہر ملک کے سنیما کی اپنی ایک شناخت ہوتی ہے اور پاکستانی سنیما کو اب تک اپنی شناخت نہیں معلوم۔ ملک میں ٹیلنٹ تو ہے مگر اسے آگے لانے کی ضرورت ہے۔ اسماءنے ایک بار پھر زور دیا کہ ٹکٹ کی قیمتوں کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے اور حقیقی معنٰی میں عوام کے لیے سنیما کے دروازے کھولنے ہوں گے۔

فُٹ پرنٹ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے جنرل منیجر مرزا سعد بیگ کا کہنا ہے کہ صرف معیاری فلموں کی مسلسل فراہمی ہی پاکستانی سنیما کو بچا سکتی ہے: ''گزشتہ پانچ برس میں عالمی سطح پر بھی فلموں کا معیار بہت بلند ہوچکا ہے اور عوام ہر اس چیز کو مسترد کردیں گے جو انہیں تفریح فراہم کرنے میں ناکام رہے گی۔۔۔ یہ کوئی آسان اور جلد ہونے والا کام نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی مدد بہت ضروری ہے کہ وہ نوجوان ہدایت کاروں کی مدد کرے۔‘‘

اس ضمن مین بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ فلم لال کبوتر میں مرکزی کردار ادا کرنے والی منشا پاشا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''سنیما کو ٹکٹ کی قیمتیں کم کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں کم بجٹ کی معیاری فلمیں بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘ منشا سمجھتی ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ فلمی صنعت کو رعایت دے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا کام بھی بہتر بنانا ہوگا۔

ہدایت کار عاصم رضا کا خیال ہے کہ سنیما کی ابتر صورت حال کی وجہ بدترین معاشی صورتِ حال ہے: ''بالی وڈ ہو یا نہ ہو، عوام فلم دیکھنے صرف اسی صورت میں جائیں گے جب وہ ٹکٹ خریدنے کی سکت رکھتے ہوں گے۔‘‘

ایوارڈ یافتہ ہدایت یافتہ ہدایت کار کمال خان کا کہنا تھا کہ بالی وڈ کی غیر موجودگی میں ہمیں زیادہ سے زیادہ فلمیں بنانا ہوں گی، ''جب ہم زیادہ فلمیں بنائیں گے تو ہماری فلموں کا معیار بھی بہتر ہوتا جائے گا لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔‘‘

اگر ہم مندرجہ بالا افراد کی رائے دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی سنیما جو اب ملٹی پلیکس کی شکل میں موجود ہے اس کے مہنگے ٹکٹ کو عوام کی دوری کا ایک سبب قرار دیا جارہا ہے۔

پاکستانی فلمسازوں کی جانب سے بالی وڈ کی فلموں کا چربہ اس کی دوسری بڑی وجہ قرار دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے فلموں کے فروغ کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اور کچھ حوصلہ افزائی بھی درکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلم سازوں کی جانب سے بھی عوام کو اچھی اور معیاری فلمیں دینے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کے زوال کا آغاز 1980ء کی دہائی میں شروع ہوا اور رواں صدی کے آغاز میں یہ مکمل تباہی کا شکار ہوگئی۔ اس کی بحالی کا عمل دوسری دہائی کے وسط میں شروع ہوا مگر تیسری دہائی کے آغاز میں ہی بحالی کی ساری محنت اکارت جاتی محسوس ہو رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں