2030ء: ’پاکستان میں بکنے والی نئی کاروں میں سے نصف الیکٹرک‘
6 ستمبر 2024بی وائے ڈی پاکستان کا کہنا ہے کہ 2030ء تک پاکستان میں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں سے 50 فیصد الیکٹرک ہوں گی۔
’بی وائے ڈی پاکستان‘ چینی الیکٹرک کارساز کمپنی بی وائے ڈی اور پاکستانی میگا موٹرز کا ایک اشتراک ہے، جس کا اعلان بی وائے ڈی نے پچھلے ماہ کیا تھا۔
اس اشتراک کے تحت بی وائے ڈی نے پاکستان میں 2026ء کے اوائل میں گاڑیوں کا ایک اسمبلی پلانٹ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ تاہم اس کی جانب سے پاکستان میں فروخت کے لیے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو اسی سال متعارف کرایا جائے گا۔
اس حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز سے جمعرات کو گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں بی وائے ڈی کے ترجمان کامران کمال کا کہنا تھا، ''میں پچاس فیصد تک (صارفین کی) جدید این ای ویز (نیو انرجی وہیکلز) پر منتقلی دیکھ رہا ہوں۔‘‘
کامران کمال حب پاور کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر بھی ہیں، جس کی بی وائے ڈی کے ساتھ اشتراک کرنے والی میگا موٹرز ایک ماتحت کمپنی ہے۔
آٹو سیکٹر یا گاڑیوں کے شعبے سے منسلک تجزیہ کار محمد ابرار پولانی کا تاہم کہنا ہے کہ 2030ء تک صارفین کی تیس فیصد تک بجلی سے چلنے والی این ای ویز پر منتقلی تو ممکن نظر آتی ہے لیکن اس کا پچاس فیصد تک ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی وجہ انفراسٹرکچر سے منسلک مسائل ہیں۔
اس بارے میں کامران کمال کا کہنا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ انفراسٹرکچر کی تعمیر کی ترغیب کے لیے حکومت اقدامات کرے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دو آئل مارکیٹنگ کمپنیاں بی وائے ڈی پاکستان کے ساتھ چارجنگ اسٹیشنز کی تعمیر کے لیے تعاون کر رہی ہیں اور ابتدائی مراحل میں ان کا 20 سے 30 اسٹیشنز بنانے کا ارادہ ہے۔
اگست میں مقامی میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ وزارت توانائی نے الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشنز کی تعمیر کے معیارات کا تعین کر لیا ہے اور ان کے لیے سستی بجلی کی فراہمی پر غور کیا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں کامران کمال نے بتایا کہ ابتدا میں بی وائے ڈی تیار شدہ الیکٹرک گاڑیاں پاکستان میں درآمد کر کے انہیں فروخت کرے گی۔ تاہم گاڑیوں کے حصوں کو علیحدہ علیحدہ امپورٹ کرنے کی نسبت مکمل طور پر تیار گاڑیوں کی درآمد پر زیادہ خرچہ ہوتا ہے۔
اس تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی کا ہدف جلد از جلد پاکستان میں اسمبل کی گئی الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرانا ہے۔
م ا ⁄ اا (روئٹرز)