2050ء میں پانی کی شدید قلت ہو گی، جائزہ
29 مارچ 2011اِس مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی بڑھتی جائے گی اور شہروں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ زیادہ آبادی والے اِن شہروں میں پانی کی قلت حفظانِ صحت کے حوالے سے کئی سنگین مسائل کا باعث بنے گی۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے مرتب کردہ اِس جائزے میں کہا گیا ہے کہ جب یہ شہر اپنی ضرورت کا زیادہ سے زیادہ پانی باہر سے منگوائیں گے تو جنگلی حیات کی بقا کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
اِس جائزے میں کہا گیا ہے کہ دیہات سے شہروں کو نقل مکانی کی موجودہ رفتار جاری رہنے کی صورت میں رواں صدی کے وسط تک شہروں میں بسنے والے 993 ملین انسانوں کو روزانہ فی کس 100 لیٹر سے بھی کم پانی دستیاب ہوگا۔ یہ کم و بیش وہ مقدار ہے، جس سے ایک باتھ ٹب بھرا جا سکتا ہے اور جو پانی کی وہ کم از کم مقدار ہے، جس کی اِس جائزے کے مرتبین کے خیال میں انسان کو ہر روز ضرورت ہوتی ہے۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اضافی طور پر 100 ملین انسان اُس پانی سے محروم رہیں گے، جس کی اُنہیں پینے، پکانے، صفائی، نہانے اور ٹوائلٹ کے لیے ضرورت پڑتی ہے۔
روب میکڈانلڈ کا تعلق نجی شعبے کے ماحولیاتی گروپ دی نیچر کنزروینسی سے ہے، جس کا صدر دفتر واشنگٹن کے نواح میں واقع ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’اِن اعداد و شمار کو تقدیر نہیں سمجھ لیا جانا چاہیے۔ یہ ایک چیلنج کی علامت ہیں۔ اِن ایک ارب انسانوں تک پانی پہنچانے کے مسئلے کے حل موجود ہیں۔ یہ محض ایک علامت ہے کہ اقتصادی ڈھانچے یا پھر پانی کے باکفایت استعمال میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی جانا پڑے گی۔‘‘
آج کل دُنیا بھر میں تقریباً 150 ملین انسان ایسے ہیں، جنہیں پانی کی کم از کم روزانہ مقدار یعنی 100 لیٹر بھی دستیاب نہیں ہے۔ میکڈانلڈ کہتے ہیں کہ آج کل ایک اوسط امریکی شہری کو روزانہ 376 لیٹر پانی دستیاب ہوتا ہے تاہم مختلف علاقوں کے اعتبار سے پانی کا حقیقی استعمال مختلف ہے۔
جن ممالک کو شہروں کی آبادی میں اضافے اور پانی کی بڑھتی قلت کے مسئلے کا سامنا ہے، اُن میں بھارت اور چین سرفہرست ہیں۔ چھ بھارتی شہروں ممبئی، دہلی، کولکتہ، بنگلور، چنائی اور حیدرآباد پانی کی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ جائزے کے مطابق 2050ء تک جن انسانوں کو پانی کی قلت درپیش ہو گی، اُن میں سے اکٹھے 119 ملین صرف وہ ہوں گے، جو دریائے گنگا کے ڈیلٹا میں یا اُس کے ساتھ ساتھ بس رہے ہوں گے۔
مون سون کی سالانہ بارشوں کے سبب بھارت میں پانی کی کمی نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آسمان سے برسنے والے اِس پانی کو کیسے محفوظ کیا جائے تاکہ وہ خشک موسم میں بھی کام آ سکے۔ اِسی طرح لاگوس اورنائیجیریا جیسے افریقی ممالک میں بھی موسلا دھار بارشیں ہوتی ہیں لیکن وہاں بھی اِس پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔
اِس جائزے میں کہا گیا ہے کہ اگر ترقی پذیر ممالک کہیں باہر سے پانی لیں گے تو اُن کے ماحولیاتی نظام خطرے سے دوچار ہو جائیں گے۔ مثلاً پانی کی قلت کا شکار ہونے والے ممکنہ علاقوں میں شامل بھارت کے مغربی علاقے گھاٹ میں مچھلیوں کی تقریباً 300 اَقسام پائی جاتی ہیں۔ اِن میں سے 29 اَقسام ایسی ہیں، جو صرف اِسی علاقے میں ہیں اور دُنیا کے کسی دوسرے علاقے میں نہیں پائی جاتیں۔ میکڈانلڈ کہتے ہیں کہ اگر ’شہروں کے لوگ دریاؤں کا سارا پانی استعمال کر لیں گے تو اِن دریاؤں میں رہنے والے جانداوں کی انواع کی بقا خطرے سے دوچار ہو جائے گی‘۔
جائزے میں پانی کے باکفایت استعمال کا مشورہ دیا گیا ہے، خاص طور پر سب سے زیادہ پانی خرچ کرنے والے شعبے زراعت میں۔ غریب ملکوں میں تقریباً آدھا پانی بد انتظامی اور کمزور اقتصادی ڈھانچے کے سبب بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اِس جائزے میں کہا گیا ہے کہ غریب ملکوں کو بین الاقوامی امداد دی جانا پڑے گی تاکہ وہاں کے باسیوں کو بھی پانی کے استعمال کا بنیادی انسانی حق حاصل ہو سکے۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر منعقدہ مذاکرات میں غریب ملکوں کی مدد کے لیے ایک عالمگیر فنڈ قائم کرنے پر اتفاقِ رائے ہو گیا تھا، جس کے تحت سن 2020ء سے ان ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
اِس جائزے کے مطابق دُنیا کے جو دیگر شہر رواں صدی کے وسط تک ممکنہ طور پر پانی کی شدید قلت کے مسئلے سے دوچار ہوں گے، اُن میں منیلا، بیجنگ اور تہران کے ساتھ ساتھ پاکستانی شہر لاہور بھی شامل ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: شامل شمس