نيل کا پانی اور مصريوں کی مشکلات
12 جنوری 2011اقوام متحدہ بنيادی ضروريات کے لئے پانی کی جتنی مقدار ضروری قرار ديتا ہے، مصريوں کو اب نيل سے اُس کی صرف ايک تہائی مقدار مل پا رہی ہے۔ خاص طورپر زراعت کو شديد مشکلات کا سامنا ہے جو ہر تيسرے مصری کی گذر بسر کا ذريعہ ہے۔
دريائے نيل کے پانی پر مصر نے اپنے حق کو کئی عالمی معاہدوں کے ذريعے بہت پکا کر ليا ہے۔ سن 1929 ميں اُس نے نوآبادياتی طاقت برطانيہ کے ساتھ بھی اس قسم کا معاہدہ کيا تھا۔ تاہم مصر کو عالمی قانون کے حوالے سے نيل کے پانی کے سب سے بڑے حصے پر اپنے دعوے کو منوانے ميں شديد مشکل پيش آئے گی۔
مصری حکومت نے سن 1980 کے عشرے ميں دريائے نيل کے ڈيلٹا ميں، بحيرہء روم سے کوئی 80 کلوميٹر دور دو لاکھ 50 ہزار ہيکٹر رقبے پر پھيلے صحرائی علاقے کو زرعی زمين ميں تبديل کر دياتھا۔ يہاں دولاکھ کسانوں کوبسايا گیا جنہيں مصری 'فلاحين' کہتے ہيں اور جنہيں اپنے پرانے علاقے ميں گذر بسر ميں بہت مشکلات پيش آ رہی تھيں۔
نيل کے پانی کو نہريں کھود کر يہاں تک لايا گيا ہے۔اسی پانی سے فلاحين مونگ پھلياں، پھلياں، اور نارنگياں اُگاتے ہيں۔ عبدالختر پچھلے 23 برسوں سے اس علاقے ميں رہ رہے ہيں۔ وہ يہاں کی سخت زندگی کے ہاتھوں وقت سے پہلے بوڑھے ہوگئے ہيں۔ انہوں نے کہا: ’’ ميرے پاس دو ہيکٹر زمين ہے جہاں زير زمين پانی کی سطح بہت اونچی ہے۔ ميں يہاں دسمبر سن 1987 سے ہوں اور اس طرح مجھے يہاں آئے ہوئے 23 برس ہوچکے ہيں۔ ميں نے وزارت زراعت کا ايک اشتہار ديکھا تھا جس ميں يہاں صحرا ميں سستی زمينوں کی فروخت کی پيشکش کی گئی تھی۔ ليکن ميری يہ زمين ، جس پر ميں نے مونگ پھلی اور تربوز اگائے تھے، دو سال بعد ہی ناکارہ ہوگئی۔ اس کے بعد سے ميں دہاڑی پر کام کررہا ہوں۔ ايک دن مجھے کام مل جاتا ہے تو دوسرے دن نہيں۔‘‘
تين بيٹوں کے باپ عبدالختر کے کندھے جھکے ہوئے ہيں اور وہ بہت ہی نا اميد نظر آتے ہيں۔ يہی حال يہاں کے بہت سے دوسرے کسانوں کا بھی ہے۔ اس دوران، نو باريا کہلانے والے اس صحرائی زرعی علاقے کا 15 فيصد حصہ ناقابل استعمال ہو چکا ہے کيونکہ يہاں زير زميں پانی کی سطح بہت اونچی ہوگئی ہے اور يہ زير زمين پانی نمکين يا کھارا بھی ہے۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے، بحيرہء روم ميں گرنے و جرمن سوسائٹی برائے تيکنيکی تعاون، آبادی، قاہرہ، مصری حکومت، مشورے، کارکردگی، آبپاشی، الے نيل کے پانی کی مقدار مسلسل کم ہوتی جارہی ہے جبکہ نمکين سمندری پانی مسلسل مصر کے اندرونی علاقوں ميں داخل ہورہا ہے۔ مصر کا کچھ حصہ سمندر کی سطح سے نيچے واقع ہے۔ مصر ميں دريائے نيل کے نخلستانوں کو پانی سے سينچنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
جرمن سوسائٹی برائے تيکنيکی تعاون کے پال ويبر کی طرح بہت سے دوسرے ماہرين کا بھی يہی کہنا ہے کہ اس صورتحال کے نتيجے ميں مصر اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو غذا کی فراہمی کے سلسلے ميں مسلسل زيادہ مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ يہ جرمن سوسائٹی، آبپاشی کے ميدان ميں مصری حکومت کو مشورے ديتی ہے۔ ويبر کا کہنا ہے کہ مصری زراعت، دنيا کی بہترين کارکردگی والی زراعتوں ميں شمار ہوتی ہے اور اُس کی پيداوار کو مزيد بڑھانا تقريباً ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ پانی کی بچت کا کام بھی اتنا آسان نہيں ہے۔ زراعت ميں استعمال ہونے والی صحرائی زمين سے نمک دھو کر نکال دينا بہت ضروری ہے کيونکہ اس کے بغير يہ زمين زرخيز نہيں ہو سکتی۔ نيل کے ڈيلٹا ميں بہت زيادہ پانی طلب کرنے والی چاول کی کاشت بہت ضروری ہے تاکہ زمين ميں داخل ہونے والے نمکين سمندری پانی کے دباؤ کو روکا جاسکے۔
مصر کا ايک اور مسئلہ پانی کا تيزی کے ساتھ گندا ہونا ہے۔ کيميائی کھاد اور کيڑے مار دواؤں کے اجزاء اور صرف قاہرہ اور اردگرد کے علاقوں کی 20 ملين آبادی کا نکاسی کا گندا پانی کسی قسم کے فلٹر سے گذارے بغير براہ راست نيل ميں بہايا جارہا ہے۔ اس کے نتيجے ميں اس دريا کا پانی اتنا گندا ہوگيا ہے کہ جگر کی بيمارياں بڑھتی اور عمريں گھٹتی جارہی ہيں۔ مختصراً يہ کہ مصر، بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کی قلت کے زبردست مسئلے پر قابو پانے کے قابل نظر نہيں آتا۔ پال ويبر نے کہا:
’’ ہاں، ميرے خيال ميں مسئلہ يہی ہے۔ مصر کی آبادی ميں ہر سال 16 لاکھ کا اضافہ ہورہا ہے۔ کوئی حکومت، کوئی عالمی ادارہ، زراعت جیسے روايتی شعبوں سے باہر اتنی زيادہ ملازمتيں پيدا نہيں کر سکتا کہ تمام نوجوان ملازمت حاصل کر کے روزی کما سکيں۔ ان نوجوانوں ميں غم وغصہ بڑھ رہا ہے کيونکہ وہ شادی کرنے تک کے لئے کافی پيسہ نہيں کما پا رہے ہيں۔ ‘‘
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: افسراعوان