1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر ميں پارليمانی انتخابات اور اخوان المسلمون

Shahab Ahmed Siddiqui25 نومبر 2010

مصر ميں 28 نومبر کو ہونے والے پارليمانی انتخابات ميں اخوان المسلمون کو صدر حسنی مبارک کی حکومتی پارٹی کا سب سے اہم مخالف سمجھا جا رہا ہے۔ ناقدين انتخابات سے پہلے ہی يہ کہہ رہے ہيں کہ اخوان المسلمون کو ہراساں کيا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/QIEL
مصری صدر حسنی مبارکتصویر: picture-alliance/Landov

42 سالہ احمد دياب سرکاری طور پر ايک آزاد اميدوار ہيں ليکن شہر کليوب ميں ان کے انتخاباتی حلقے ميں ہر شخص ہی يہ جانتا ہے کہ وہ ممنوعہ اخوان المسلمون پارٹی سے تعلق رکھتے ہيں۔ احمد دياب آج کل اپنے حلقے ميں جگہ جگہ گھوم پھر کر لوگوں کو اس پر آمادہ کرتے نظر آتے ہيں کہ وہ 28 نومبر کو ہونے والے پارليمانی انتخابات میں اپنے ووٹ اُنہيں ديں۔

عرب دنيا کی اہم ترين تحريک اخوان المسلمون مصر ميں سرکاری طور پر تو ممنوع ہے ليکن وہ بہت پُر اثر ہے اور عوام بڑی تعداد ميں اُس کے حامی ہيں۔ اسی لئے معمر صدر حسنی مبارک کی حکومت اس تحريک کو برداشت بھی کر رہی ہے۔ اس کا مطلب عملی اعتبار سے يہ ہے کہ اخوان المسلمون کے نہ صرف خود اپنے ذرائع ابلاغ ہيں بلکہ وہ باقاعدگی سے انتخابات ميں بھی حصہ ليتے ہيں۔ اُس کے تمام اميدوار بظاہر آزاد اميدواروں کے طور پرسامنے آتے ہيں۔ يہ ايک عام بات ہے اور سن 2005 ميں اخوان المسلمون نے اسی طرح 20 فيصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ ليکن چينی زبان کے ليکچرر احمد دياب کے خيال ميں اس مرتبہ اسے اتنی کاميابی نہيں مل سکے گی کيونکہ 82 سالہ صدر مبارک کی قومی جمہوری پارٹی اس کی راہ ميں رکاوٹيں کھڑی کر رہی ہے، جسے خفيہ اداروں پر بھی بڑی حد تک کنٹرول حاصل ہے:

Ägypten Wahlen 2010
انتخاباتی مہم ميں مبارک کی تصاوير والبے پوسٹرتصویر: AP

اوٹون

’’حکومتی پارٹی، منصفانہ انتخابات کی بجائے سلامتی کے سخت تر اقدامات کے ذريعے ہم اخوان المسلمون کی راہ روک رہی ہے۔ ہمارے تقريباً 1200حامی گرفتار کئے جا چکے ہيں۔ اميدواروں کو انتخابی فہرستوں سے خارج کيا جا رہا ہے۔ ہم پر بہت زیادہ سختياں کی جا رہی ہيں۔‘‘

ايمنيسٹی انٹر نيشنل نے بھی اپنی ايک حاليہ رپورٹ ميں تنقيد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اخوان المسلمون کے علاوہ دوسرے گروپوں کے خلاف بھی سخت کارروائياں کی جا رہی ہيں۔

عدليہ کی آزادی کے عرب مرکز کے سربراہ ناصر امين نے، جو انتخابات کے دوران ایک مبصر بھی ہيں، کہا کہ سن 2000 کی آئينی ترميم کے مطابق رياست پر يہ پابندی تھی کہ وہ ہر پولنگ اسٹيشن پر ايک جج مقرر کرے۔ شہريوں کے لئے شفاف انتخابات کی يہ واحد ضمانت تھی کيونکہ مصری جج رياست کے دباؤ سے بڑی حد تک آزاد سمجھے جاتے ہيں۔ ليکن سن 2006 کی آئينی ترميم کے ذريعے عدليہ کی طرف سے اليکشن کی اس نگرانی کو تقريباً مکمل طور پر ختم کر ديا گيا ہے۔

Mohammed Badie neuer Führer der Muslimbrüder NO FLASH
اخوان المسلمون کے قائد محمد باديےتصویر: picture alliance/dpa

امريکہ نے اس دفعہ مصر پر سخت تنقيد کی ہے کہ وہ انتخابات کی نگرانی کے لئے بين الاقوامی مبصرين کو مصر آنے کی اجازت نہيں دے رہا ہے۔ تاہم امريکہ صدر مبارک کی حکومت کو قابل اعتماد ساتھی اور علاقے ميں استحکام کی ضمانت بھی سمجھتا ہے اور اخوان المسلمون کی فتح پر امريکہ ميں يقيناً خطرے کی گھنٹياں بجنے لگيں گی۔

رپورٹ: ياسر ابو معالق (ڈوئچے ویلے) / شہاب احمد صدیقی

ادارت: امجد علی