35 لاکھ بچے وبائی امراض کے خطرات سے دوچار
16 اگست 2010پانی کے زبردست بہاؤ کے سبب ضلعی ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اللہ یار بری طرح متاثر ہوا ہے اور روجھان جمالی سمیت اردگرد کے درجنوں قصبے زیر آب آ گئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بلوچستان کے دیگر علاقوں کا رخ کر رہے ہیں کیونکہ شکار پور شہر کو بچانے کیلئے جو ریلوے ٹریک توڑا گیا تھا اس کے سبب بلوچستان کا پنجاب اور سندھ سے زمینی رابطہ کٹ گیا ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق کے سینیٹر میر محبت خان مری کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم توجہی نے بلوچستان کے متاثرین سیلاب کو شدید مشکلات سے دوچارکر دیا ہے انہوں نے کہا ’بلوچستان میں اضلاع کے اضلاع ڈوبے ہوئے ہیں لیکن اس تمام صورتحال میں سرکاری ادارے پتہ نہیں کیا کر رہے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے لوگ پریشان ہیں اور لوگ پریشانی کی حالت میں پہاڑوں اور ویرانوں میں پڑے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 22 جولائی کو شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے سب سے پہلے بلوچستان کے علاقوں کولہو اور بارکھان میں تباہی پھیلائی تھی جس میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے علاوہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ اس وقت بھی بلوچستان کے اندر بڑے پیمانے پر لوگ محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی میں مصروف ہیں۔ پاکستانی ایوان بالا یعنی سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین میر جان محمد جمالی کا کہنا ہے کہ بے گھر افراد کی مناسب دیکھ بھال سب سے بڑا چیلنج ہے انہوں نے کہا ’لوگوں کو عارضی رہائش گاہوں، خوراک اور پینے کے صاف پانی کی ضرورت ہے‘۔
ادھر عالمی ادارہ خوراک (ورلڈ فوڈ پروگرام) کے پاکستان میں سرگرم ایک ترجمان امجد جمال کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ بلوچستان میں سیلاب متاثرین کو خوراک مہیا کرنے میں مصروف ہے تاہم ترجمان نے یہ بات تسلیم کی کہ نہایت مشکلات کے شکار حالات کے سبب بعض علاقوں میں متاثرین سیلاب کو ابھی تک امداد نہیں پہنچائی جا سکی۔
ادھر پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد کیلئے اقوام متحدہ کے نگران ادارہ ''اوچا'' نے خبردار کیا ہے کہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سبب 35 لاکھ پاکستانی بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اوچا کے ترجمان ماریزیو جیلانو کے مطابق ان بیماریوں سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی امداد کی بروقت فراہمی بہت ضروری ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ابھی تک پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی درست تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ عالمی ادارہ صحت پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر اس حوالے سے اعداد و شمار اکٹھے کرنے میں مصروف ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم اسلام آباد
ادارت: کشور مصطفیٰ