400 مندروں کی بحالی: قابل عمل فیصلہ یا کھوکھلا نعرہ؟
18 اپریل 2019متروکہ وقف املاک بورڈ کے اعلان کے مطابق حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں واقع چار سو سے زائد ہندو مندروں، پاٹھ شالاؤں، دھرم شالاؤں اور دیگر تاریخی نوعیت کے مقدس مقامات کو بازیاب کرایا جائے گا اور ضروری تعمیر نو کے بعد انہیں عبادت اور سیاحت کے لیے کھول دیا جائے گا۔
ہر برس ایک یا دو مقدس مقامات کو بحال کیا جائے گا اور اس حوالے سے سب سے پہلے سیالکوٹ اور پشاور میں دو تاریخی مندروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ رواں برس جنوری میں خیبر پختونخواہ حکومت نے پشاور کے پنچ تیرتھ مندر کو قومی ورثہ قرار دینے کا اعلان کیا تھا اور مارچ میں مرکزی حکومت نے آزاد کشمیر کے شاردا پیٹھ مندر کی بحالی کا اعلان کیا، جو مرتند سوریہ مندر اور امرناتھ مندر کے بعد کشمیر کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔
ہندوؤں کا تہذیبی ورثہ اور مذہبی سیاحت
آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے سربراہ ہارون سرب دیال نے مذہبی سیاحت کے فروغ کے لیے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے پالیسی اجلاس میں ایک پریزنٹیشن پیش کی، جس میں انہوں نے اپنی 29 برسوں کی تحقیق کا لب لباب پیش کیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں 428 تاریخی ہندو مقامات ہیں، جن میں سے 20 قابل عمل حالت میں ہیں۔ باقی 408 کو متروکہ وقف املاک بورڈ کی رضامندی سے دکانوں، پارکوں، سکولوں، عبادت گاہوں یا رہائشی علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے 40 لاکھ ہندوؤں کی 135,000 ایکٹر زرعی زمین بھی بورڈ کے تصرف میں ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہندو تہذیب اور مذہب کے قیمتی ورثے پر مشتمل ہزاروں مقامات ہیں اور ’پاکستان ان 38ممالک کی فہرست میں 39واں ملک ہو سکتا ہے، جو مذہبی سیاحت کی مد میں ہر برس اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ تقسیم کے وقت پاکستان کی آبادی کا 33 فیصد مذہبی اقلیتوں پر مشتمل تھا۔ یہ وہ غیر مسلم تھے، جنہوں نے پاکستان کو ترجیح دی تھی۔ لیکن ابتدائی برسوں میں ہی لوٹ مار، قبضہ گیری اور مذہبی تعصب کی وجہ سے بیشتر غیر مسلم یا تو ملک چھوڑ گئے یا اپنا مذہب تبدیل کر گئے۔ آج اقلیتوں کی کل تعداد پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے، جس میں ہم ہندو تین فیصد کے قریب ہیں۔‘
ہمارا سب کچھ پاکستان ہی میں ہے
پاکستان میں واقع ہندو دھرم کے مقدس ترین مقامات میں سیالکوٹ کا جگن ناتھ مندر، لسبیلہ میں ہبگلاج ماتا مندر (یہ ان 18 مقامات میں سے ایک ہے، جہاں ہندو روایت کے مطابق دیوی ستی کے جسم کے ٹکڑے گرے۔ ہندو دیو مالا کے مطابق وشنو دیوتا نے شوا دیوتا کے کائناتی رقص کے دوران ستی دیوی کو ٹکڑے ٹکڑے کیا)، کراچی کا شری ورن دیو مندر، کراچی سولجر بازار میں پنچ مکھی ہنومان مندر، ارورہ سندھ میں کالکا دیوی کی غار (دیومالا کے مطابق کالی دیوی نے ہنگلاج جاتے ہوئے یہاں قیام کیا)، رنچھور لائن کراچی میں نوال مندر، پشاور کے گورکھتری اور گورکھ ناتھ مندر (اس کا ذکر بابر نامہ میں بھی ملتا ہے)، ملتان کا سوریہ مندر (جسے کرشن مہاراج کے بیٹے سامبہ نے تعمیر کیا، اس کا ذکر ہیروڈہٹس نے بھی کیا)، کراچی کے سری سوامی نارائن مندر اور چکوال کا کٹاس راج مندر شامل ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ہارون سرب دیال کا کہنا تھا، ’’پشاور کے کالی باڑھی مندر کی زیارت کے لیے مہاتما گاندھی اور دیگر کئی سیاسی رہنما آئے، اسی طرح گوروگورتھ ناتھ مندر پانچ ہزار برس پرانا ہے۔ پنچ تیرتھ کو خوشحال پارک بنا دیا گیا، رسالپور میں واقع کئی مندر امام بارگاہوں میں تبدیل ہو گئے، پشاور کی پاٹھ شالہ کو پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت نے ہائی اسکول بنا دیا تھا، مانسہرہ میں دنیا کا دوسرا بڑا شیو لنگم ہے، اسی طرح پنجاب کے گوجرانوالہ کے علاقہ ایمن آباد میں گندگی کے ڈھیر میں سیاہ پتھر کا سات فٹ کا شو لنگم زمین میں دھنسا ہوا ہے اور اس کے گرد واقع پانچ مندروں میں چارہ کاٹنے کی مشینیں، گائے بھینسیں وغیرہ بندھی ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں سوریہ دیو کی سمادھی ہے، جو آرکیالوجی کا شاہکار ہے۔ خیبر پختونخواہ کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے مطابق، صوبہ بھر میں ہندوؤں کی 65 مقدس ترین زیارتیں واقع ہیں۔ لاہور، کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد کسی مقام پر جائیں، ہندو تہذیبی ورثہ بکھرا پڑا ہے۔‘‘
’کٹاس راج کو سب جانتے ہیں لیکن اس سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ’بھون‘ ہے، جہاں دس تاریخی مندر ہیں اور تین کلومیٹر آگے گنگوکھوئی ہے، اس سے آٹھ کلومیٹر پر شو مندر پڈھا ہے، بارہ کلومیٹر پر ہنومان کا ٹیلہ ہے، رام کورٹ فورٹ منگلا ڈیم پر ہے۔ ملتان میں بھگت پرلاگ کا دربار ہے، جو ہولی کے تہوار کے بانی ہیں۔ درحقیقت ہولی کے تہوار کا آغاز ملتان سے ہوا، جس کا پہلا نام مولستان تھا۔ رامائن کے لکھاری بالمیک کا استھان ڈیرہ غازی خان میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں، ہندو دھرم کے اس قدر برگزیدہ اور مقدس مقامات ہیں کہ اگر انہیں بحال کر دیا جائے تو ان کی زیارت کے لیے بھارت، نیپال، سری لنکا، امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے ہزاروں سیاح ہر سال آئیں گے۔ اس طرح مذہبی ہم آہنگی میں آضافہ ہو گا، مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا اور پاکستان کا ایک مثبت امیج اجاگر ہو گا۔‘‘
کیا قبضہ مافیا کو شکست دینا ممکن ہے؟
ہارون سرب دیال کے مطابق، ’’قبضہ گیر نہیں چاہتے کہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی ہو اور اس کے نتیجے میں ہندوؤں کے مقدس مقامات اور زرعی زمینوں کو واپس کرنا پڑے۔ وزیراعظم نے ٹاسک فورس بنانے کا حکم دیا ہے لیکن اسے سیاست بازی کی نظر نہ کیا جائے اور اس میں ہمیں شامل کیا جائے۔ اقلیتوں کے لیے بننے والی کسی کمیٹی، کمیشن یا اصلاحاتی یونٹ میں اقلیتی نمائندے شامل نہیں ہوتے۔‘‘
رکن قومی اسمبلی اور ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’درحقیقت پاکستان میں 1030 ہندو مندر ہیں جن میں 1000 بند پڑے ہیں۔ اسی طرح 517 گوردواروں میں 500 بند ہیں۔ جن مندروں پر قبضہ ہو چکا ہے یا جو مسمار ہو چکے ہیں یا کرپشن کی کمائی کا ذریعہ ہیں، انہیں وا گزار کیسے کرایا جائے گا؟ متروکہ وقف املاک بورڈ کا سربراہ کسی ہندو کو ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے بھی ہدایات دیں اور میں نے سابق چیف جسٹس رانا بھگوان داس کا نام بھی دیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘‘
تحقیقی ادارے پنجابی کھوج گڑھ کے بانی اور پاکستان میں سکھوں اور جین مت کے تہذیبی ورثے پر کتابوں کے خالق اقبال قیصر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہندوؤں کے مذہبی مقامات کی بحالی اور پاکستان میں ان کے تاریخی اور تہذیبی مقام و مرتبہ کا منصفانہ تعین اس لیے بھی مشکل ہے کہ دونوں ملکوں نے اپنے ریاستی بیانیوں اور نظریہ سازی میں ایک دوسرے کا انتہائی منفی طور پیش کیا ہے۔ جب تک دلوں سے مذہبی تعصب ختم نہیں ہو گا، اس مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔ دوسری طرف بھارت کے اندر بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی نے پاکستان کے ہندوؤں کا بہت نقصان کیا ہے۔ لیکن غیر مسلموں کے تہذیبی ورثے کی حفاظت پاکستان کے ثقافتی تنوع کی حفاظت ہے، جو ہمیں غیر مشروط طور پر کسی تقابل کے بغیر کرنی چاہیے۔ پاکستان کرتارپور راہداری کے حوالے سے جو شاندار اقدامات کر رہا ہے، یہ ہمارا مجموعی قومی کردار ہونا چاہیے۔‘‘