1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

پاکستانی ساحلوں میں سبز کچھوؤں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ

12 دسمبر 2021

پاکستانی وائلڈ لائف حکام کی جانب سے اس سال سبز کچھوؤں کے نو سو بچوں کو ساحل سے سمندر تک پہنچایا گیا۔ ماحولیاتی ماہرین اسے کچھوؤں کی بقاء میں اہم کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/43tfC
تصویر: REUTERS

کورونا وبا کے باعث دنیا بھر کے سمندری ساحلوں پر انسانوں کی نقل و حرکت کافی محدود ہو گئی تھی۔ کچھوؤں نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ اب وہ بڑی تعداد میں ساحلوں میں آرہے ہیں اور اس طرح ان کی افزائش نسل بھی ہو رہی ہے۔

ایک مادہ سمندر میں واپس جانے سے پہلے ساحل کی ریت میں ایک سو یا اس سے زیادہ انڈے دبا دیتی ہے۔

ستمبر سے نومبر افزائش کا موسم

کراچی کے ساحلوں پر سبز نسل کے کچھوؤں  کی تعداد پندرہ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ سندھ وائلڈ لائف کے مطابق سن 2019 میں یہ تعداد آٹھ سے ساڑھے آٹھ ہزار کے درمیان تھی۔ اگرچہ پاکستان میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ ماہرین کو اب بھی توقع ہے کہ جانوروں کی بڑی تعداد ساحل کا رخ کرے گی۔

سبز کچھوؤں کا شمار بڑے حجم والے سمندری کچھوؤں میں ہوتا ہے۔ ان سبزی خور سبز کچھوؤں کا وزن 90 کلوگرام سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔

پاکستان کی ماحول دوست گڑیا

وہ 80 سے زیادہ ممالک میں اپنی پناہ گاہیں بناتے ہیں اور گرم موسم والے قریب ڈیڑھ سو علاقوں میں آباد ہیں۔ سی ٹرٹلز کنزرویشن گروپ کے مطابق دنیا بھر میں انڈے دینے والی مادہ کچھوؤں کی تعداد پچاسی سے نوے ہزار ہے۔

سینکڑوں کچھوؤں کے بچوں کو سمندر پہنچا دیا گیا

کراچی کا موسم اگلے سال جنوری تک انڈے دینے کے لیے سازگار ہو سکتا ہے اسی لیے وائلڈ لائف حکام ساحلوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ سندھ وائلڈ لائف کے اشفاق علی میمن  کا کہنا ہے،''ابھی کچھوؤں کے پاس انڈے دینے کے لیے کافی وقت ہے۔ اس سیزن میں یہاں کچھوؤں کی بہت بڑے تعداد آئی۔ تین ماہ کے عرصے میں ہم نے چھ ہزار انڈوں کو محفوظ کیا ہے۔'' اشفاق میمن کے مطابق جیسے ہی مادہ انڈے دینے کے بعد اپنی جگہ کو چھوڑتی ہے، ان کا سٹاف فوری طور پر ریت میں دبے انڈے نکال لیتا ہے اور انہیں ایک میٹر گہرے گڑھے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ چالیس سے پینتالیس دن بعد انڈوں سے کچھوؤوں کے بچے پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان بچوں کو پھر سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

Pakistan Karachi Rettung Schildkrötenbabys Schildkröten
کراچی کا ساحلتصویر: REUTERS

سن 1970 سے اب سندھ ٹرٹل یونٹ سمندر میں کچھوے کے ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد بچوں کو چھوڑ چکی ہے۔ میمن کے مطابق صرف اس سیزن میں ہی نو سو بچوں کو سمندر تک پہنچایا گیا۔ ماہرین کی رائے میں ماضی میں سمندری کچھوؤں کو ان کے گوشت، چربی اور ان کے انڈوں کے لیے شکار کیا جاتا تھا لیکن اب حالیہ کچھ برسوں میں آلودگی اور زمین کی کمی بھی ان کی بقاء کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔

ب ج، ع ا (روئٹرز)