پاکستان: سیاسی و اقتصادی مسائل کے سائے میں جشن آزادی
14 اگست 2022اس موقع پر ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں خصوصی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ سرکاری اور غیرسرکاری عمارتوں کو قومی پرچموں، سبز ہلالی جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے سجایا گیا ہے۔ قومی ترانوں اور ملی نغموں کی گونج میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قومی پرچم لہرانے کی تقریبات ہو رہی ہیں۔
ان تقریبات کا آغاز رات گئے ہی ہو گیا تھا۔ بارہ بجتے ہی ملک کے مختلف حصوں میں آتش بازی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کئی بڑے شہروں میں نوجوانوں کی ٹولیاں سبز ہلالی پرچموں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئیں اور انہوں نے پاکستان کے حق میں نعرے لگا کر اور اونچی آواز میں ترانے بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ نماز فجر کے بعد مساجد میں ملک کی ترقی اور سلامتی کے لیے دعائیں بھی مانگی گئیں ۔
آج اخبارات نے پاکستان کے جشن آزادی کے حوالے سے خصوصی ایڈیشنز شائع کیے ہیں اور ٹی وی چینلز بھی یوم آزادی کے حوالے سے خصوصی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں گلیوں اور بازاروں کو پاکستانی پرچموں کے رنگوں والی جھنڈیوں اور دعائیہ بینروں سے سجایا گیا ہے۔ کراچی میں مزار قائد اور لاہور میں مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب بھی یوم آزادی کے پروگرام کا حصہ تھی۔
سیاسی عدم استحکام جاری
ملک کے وزیر اعظم شہباز شریف اور حزب اختلاف کے رہنما عمران خان بھی گزشتہ رات یوم آزادی کے حوالے سے کی جانے والی اپنی تقریروں میں الزامات اور جوابی الزامات کی تلخی سے باہر نہیں نکل سکے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے ہزاروں لوگوں کے مجمعے سے بھرے ہوئے لاہور کے ہاکی اسٹیڈیم میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وفاقی حکومت کی رخصتی اور نئے الیکشن کے انعقاد تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ اور وہ اپنا مقدمہ لے کر عوام کے پاس جائیں کے ۔ انہوں نے اپنےاحتجاج کے اگلے مرحلے میں راولپنڈی، کراچی، سکھر، حیدرآباد، اسلام آباد، پشاور، مردان، اٹک، ایبٹ آباد، ملتان، بہالپور، سرگودھا، جہلم، گجرات، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور کوئٹہ میں عوامی جلسے کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف کیسز بنانے کا پلان بنایا گیا ہے اور ان کو ڈس کوالیفائی کرکے نواز شریف کو واپس بلانے کی سازش ہو رہی ہے۔ جشن آزادی کے حوالے سے منعقد کیے جانے والے اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت گرانے والے اب ایک اور سازش کر رہے ہیں،'' انہوں نے میرے خلاف کیسز بنانے کا پلان بنایا ہے، مجھے ڈس کوالیفائی کرکے نواز شریف کو واپس بلانے کی سازش ہو رہی ہے، سازش کرنے والے کان کھول کر سن لیں عمران خان کوئی ڈیل نہیں کرے گا۔‘‘
ادھر وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے یوم آزادی کی مناسبت سے کیے جانے والے اپنے قوم سے خطاب میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں قائم ہونے والی گزشتہ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھاکہ آج قوم کو تقسیم در تقسیم اور پارہ پارہ کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے، ''گزشتہ حکومت نے اس ملک کو مالی طور پر محتاج بنا دیا۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ 48 ارب ڈالر کا قرض لیا، ہم ملک کو گندم میں خود کفیل چھوڑ کر گئے تھے لیکن اب اربوں ڈالر کی گندم باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ حکومت نے کرپشن اور سنگین مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایل این جی کا کوئی معاہدہ نہیں کیا، گزشتہ حکومت نے کس کے اشارے پر سی پیک کوبند کرکے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔‘‘
پاکستان شدید اقتصادی مسائل سے دوچار
وزیراعظم شہباز شریف اپوزیشن رہنماوں کو ملکی مفاد میں اہم اقتصادی امور پر مفاہمت کے لیے میثاق معیشت کرنے کی بھی پیش کش کی۔ ان کا کہنا تھا، '' آج وقت کا تقاضہ ہے کہ بحیثیت قوم درست سمت میں سفر کو جاری رکھیں اور قومی مفاد کو ذاتی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔‘‘
پاکستان کے ایک قومی روزنامے سے وابستہ سینئر کالم نگار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اپنے قیام کے پچھتر سال بعد بھی ہمارا ملک ڈیفالٹ کے خطرات سے دوچار ہے اور اسے سیاسی استحکام نصیب نہیں ہے۔ اس وقت عام پاکستانی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہے۔ ان کے نزدیک پچھلے پچھتر سالوں میں عدلیہ سمیت ریاست کے مختلف اداروں کا اپنی حدود میں نہ رہنا اور آئین کا احترام نہ کرنا بہت سے مسائل کا سبب بنا۔ اس وجہ سے ہم ان پچھتر سالوں میں دنیا میں کوئی بہتر مقام نہ بنا سکے، آدھا ملک بھی گنوا بیٹھے اور ذرعی خودکفالت ، صنعتی ترقی اور اقتصادی بہتری بھی حاصل نہیں کرسکے۔ ‘‘
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار مزمل سہروردی نے بتایا کہ بھارت کی پاکستان دشمنی کی طویل تاریخ اور آدھا ملک گنوا دینے کے بعد پاکستان کو اپنی بقا کے لیے اپنی توجہ دفاعی استحکام کی طرف مبذول رکھنا پڑی۔ ان کے نزدیک یہ بات خوش آئند ہے کہ اس وقت ساری قوم کا فوکس معاشی بحالی کی طرف ہو گیا ہے اور ہر کسی کو سمجھ آ گئی ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کو حل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ ان کے بقول شہباز شریف اور عمران خان کی تقریروں کی اچھی بات یہ تھی کہ انہوں نے عوام کو اپنے اپنے پروگرام کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔ جمہوری معاشرے میں عوام سے رابطہ کرنا ان تک اپنی بات پہنچانا ایک مثبت عمل ہے۔ اس سے عوام کوسیاسی طور پر بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔