1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا نے سعودی عرب سے اپنے جدید ترین میزائل سسٹم نکال لیے

11 ستمبر 2021

امریکا نے سعودی عرب میں نصب کردہ اپنے جدید ترین میزائل سسٹم نکال لیے اور ساتھ ہی پیٹریاٹ بیٹریاں بھی واپس بلا لی ہیں۔ یہ بات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے بہت سی سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے کے بعد سامنے آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/40CeD
USA Saudi Arabia Patriot missile battery
سعودی عرب میں پرنس سلطان ایئر بیس کے نزدیک نصب ایک امریکی پیٹریاٹ میزائل بیٹری کی گزشتہ برس فروری میں لی گئی تصویرتصویر: Getty Images/AFP/A. Caballero-Reynolds

دبئی سے ہفتہ گیارہ ستمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب سے امریکا کے انتہائی جدید میزائل ڈیفنس سسٹم کا یہ انخلا حالیہ ہفتوں میں عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر دیکھی گئی ہے، جب خلیج کے علاقے میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی ملک سعودی عرب کو اس کی خانہ جنگی کی شکار ہمسایہ عرب ریاست یمن سے حوثی باغیوں کے مسلسل ڈرون حملوں کا سامنا ہے۔

پرنس سلطان ایئر بیس

سعودی دارالحکومت ریاض سے کچھ دور پرنس سلطان ایئر بیس سے امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم اور پیٹریاٹ بیٹریوں کی منتقلی ان دنوں میں عمل میں آئی، جب خلیج کے خطے میں واشنگٹن کے اتحادی دیکھ رہے تھے کہ افغانستان میں بیس سالہ تعیناتی کے بعد امریکی فوجی دستے کتنے بے ہنگم انداز میں ہندو کش کی اس ریاست سے رخصت ہو رہے تھے۔

نائن الیون کے بعد گزشتہ بیس برسوں میں سعودی عرب کتنا بدل چکا ہے؟

سعودی دارالحکومت ریاض سے تقریباﹰ 115 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع پرنس سلطان ائر بیس پر 2019ء میں اس وقت سے ہزاروں امریکی فوجی بھی تعینات رہے ہیں ، جب یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی تیل کی اہم ترین تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے کیے تھے۔

خلیجی عرب ریاستوں کے مستقبل سے متعلق خدشات

نیوز ایجنسی اے پی نے اس موضوع پر اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب اور ایران خطے کے دو بڑے حریف ممالک ہیں اور خلیجی ریاستوں میں ہزار ہا امریکی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ علاقے میں ایران کی عسکری اہمیت کے باعث طاقت کے توازن قائم رکھنا بھی ہے۔

امریکا سعودی تعلقات مشکلات کا شکار

دوسری طرف کئی خلیجی عرب ریاستوں کو مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا سامنا بھی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ علاقے میں مستقبل میں کسی ممکنہ تصادم کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔

امریکی فوج یہ سمجھتی ہے کہ ایشیا میں بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر وہاں امریکی میزائل نظاموں کا ہونا ضروری ہے۔ مگر خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو بے یقینی کا سامنا اس پہلو سے ہے کہ عسکری حوالے سے اس خطے کے لیے واشنگٹن کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو گا۔

خطے میں پائے جانے والے محسوسات

رائس یونیورسٹی کے جیمز بیکر انسٹیٹیوٹ فار پبلک پالیسی کے محقق کرسٹیان اُلرکسن کہتے ہیں، ''محسوسات، چاہے ان کی جڑیں حقیقت میں نہ بھی ہوں، ہمیشہ اہم ہوتے ہیں۔ کئی خلیجی ریاستوں کے فیصلہ ساز حلقوں میں پایا جانے والا ایک واضح احساس یہ بھی ہے کہ امریکا کو اب اس خطے کی اتنی زیادہ فکر نہیں رہی، جتنی پہلے ہوا کرتی تھی اور نہ ہی واشنگٹن اب اس حوالے سے ماضی کی طرح پرعزم ہے۔‘‘

خاشقجی قتل کیس: سعودی عرب کے خلاف امریکا کا خاموش رد عمل

کرسٹیان اُلرکسن کے بقول سعودی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان کی رائے میں امریکا کے مسلسل تین صدور، باراک اوباما، ڈونلڈ ٹرمپ اور اب جو بائیڈن نے متواتر ایسے فیصلے کیے ہیں، جن کی وجہ سے ریاض حکومت کو یہ احساس ہوچلا  ہے کہ جیسے اسے اکیلا چھوڑ دیا گیا ہو۔

پینٹاگون کا موقف

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جب اس نے سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے کے بعد فوج کا موقف جاننے کے لیے امریکی محکمہ دفاع سے رابطہ کیا، تو پینٹاگون کے ترجمان جان کِربی نے اعتراف کیا کہ فضائی دفاع سے متعلق مخصوص عسکری اثاثوں کی نئی تعیناتی عمل میں آئی ہے۔

جو بائیڈن اور شاہ سلمان میں بات چیت

تاہم ساتھ ہی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کے حوالے سے اپنے عزائم پر قائم ہے اور 'وسیع تر اور گہری ذمے داری‘ سے کام لے رہا ہے۔

جان کِربی کے مطابق، ''امریکی محکمہ دفاع کے بیسیوں ہزار فوجی اب بھی مشرق وسطیٰ میں تعینات ہیں اور ساتھ ہی وہاں فضائی دفاعی اور بحری عسکری صلاحیتوں کے حامل ایسے امریکی اثاثے بھی موجود ہیں، جن کا مقصد خطے میں امریکا کے قومی اور اس کے علاقائی پارٹنرز کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔‘‘

م م / ع ح (اے پی)