1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایس پر امریکی حملے، ایک اہم موڑ

Alexander Kudascheff / امجد علی24 ستمبر 2014

امریکی صدر باراک اوباما نے ’آئی ایس‘ کے دہشت گردوں پر شام میں بھی حملے کرنے کے احکامات کافی تاخیر سے جاری کیے ہیں تاہم ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار الیگذانڈر کُوڈاشیف کے مطابق یہ فیصلہ کئی لحاظ سے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DJdS
امریکا میں ایک مشق کے دوران ایک ایف بائیس طرز کے طیارے سے ایک ہزار پاؤنڈ وزنی بم گرایا جا رہا ہے
امریکا میں ایک مشق کے دوران ایک ایف بائیس طرز کے طیارے سے ایک ہزار پاؤنڈ وزنی بم گرایا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/ Everett Collection

امریکا نے بالآخر معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور فیصلہ کن انداز اور پختہ عزم کے ساتھ آئی ایس پر شام میں حملے شروع کر دیے ہیں، جہاں الرقہ اور مضافات میں اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ امریکا اکیلے یہ حملے نہیں کر رہا، عرب اتحادی بھی اُس کے ساتھ مل کر حملے کر رہے ہیں۔ ان میں سعودی عرب بھی ہے، جس پر اس قاتل گروہ ’آئی ایس‘ کی پشت پناہی اور اُس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا شبہ کیا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ امریکا ابھی اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی مینڈیٹ حاصل نہیں کر سکا ہے تاہم وہ شام اور عراق میں مسلمان بنیاد پرستوں کے خلاف جنگ کے لیے ایک بڑا اتحاد تشکیل دینے کی کوشش میں ہے اور اُس کے روایتی حلیف یعنی برطانیہ اور فرانس بھی اُس کے ساتھ مل کر حملہ شروع کرنے کے لیے اصولی طور پر تیار ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے چیف ایڈیٹر اور تبصرہ نگار الیگذانڈر کُوڈاشیف
ڈی ڈبلیو کے چیف ایڈیٹر اور تبصرہ نگار الیگذانڈر کُوڈاشیفتصویر: DW/M. Müller

کیا اسد کو ’آئی ایس‘ کے خلاف جنگ سے فائدہ ہو گا؟

یہ حملے مشرقِ وُسطیٰ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ اگرچہ شامی حکمران بشار الاسد سے ایک بار بھی یہ پوچھا تک نہیں گیا کہ آیا اُس کے خانہ جنگی سے تباہ حال اور منقسم ملک میں یہ حملے کیے جا سکتے ہیں، یہ امکان موجود ہے کہ آئی ایس کے خلاف جنگ سے سب سے زیادہ فائدہ اسد کو ہی ہو گا۔ اب تک مشرقِ وُسطیٰ میں اسد کی حیثیت ایک اچھوت کی سی تھی، ایک ایسا آمر حکمران، جو تقریباً دو لاکھ ہلاکتوں اور کئی ملین مہاجرین کے لیے قصور وار ہے تاہم دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ میں اسد کو ایک دم ایک اسٹریٹیجک پارٹنر اور تدبیراتی ساتھی کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ بلاشبہ آئی ایس یا اسد میں سے کسی ایک کو چُننا سیاسی طور پر ایک تکلیف دہ عمل ہے تاہم ضرورت پڑنے پر یہ اتحاد اسد کے انتخاب کو ترجیح دے گا۔

آئی ایس کے خلاف فضائی حملوں سے شروع ہونے والی جنگ خود امریکی صدر باراک اوباما کے لیے بھی ایک اہم موڑ کے مترادف ہے کیونکہ پہلے عراق اور اب افغانستان سے بھی اپنے فوجی دستے واپس بلانے والے نوبل امن انعام یافتہ اوباما چاہتے تھے کہ امریکا اب مزید کوئی جنگیں نہ لڑے۔ اوباما کے دور میں امریکا ایک سُپر طاقت کے طور پر ہمیشہ پیچھے پیچھے ہَٹتا رہا ہے۔ اب لیکن اچانک امریکا ایک بار پھر عرب دنیا میں فوجی اعتبار سے سرگرم ہو چکا ہے، سرِدست زمینی نہیں بلکہ محض فضائی حملوں کی صورت میں۔ سوال یہ ہے کہ یہ صورت آخر کب تک رہے گی کیونکہ تمام تر فوجی تجربات سے واضح ہے کہ جنگیں ہمیشہ زمین پر ہی جیتی جاتی ہیں اور وہ بھی ظاہر ہے، بھاری جانی نقصان کے ساتھ۔

امریکی حملوں کا نشانہ شہر الرقہ اور اُس کے مضافات کو بنایا جا رہا ہے، جہاں اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر ہے
امریکی حملوں کا نشانہ شہر الرقہ اور اُس کے مضافات کو بنایا جا رہا ہے، جہاں اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر ہےتصویر: Reuters/U.S. Central Command

آئی ایس کے خلاف جنگ یورپ میں بھی لڑی جانی چاہیے

اور یہ بات بھی ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے کہ مقصد آئی ایس پر قابو پانا یا اُس کی سرگرمیوں کو محدود کرنا نہیں بلکہ اُسے نیست و نابود کرنا ہے۔ ان انتہا پسندوں کی میڈیا پر پھیلائی جانے والی ناقابلِ یقین بے رحمانہ کارروائیاں اور اُن کی مشرقِ وُسطیٰ کو ثقافتی طور پر تباہ کرنے اور اُس کے ایک ہزار سالہ تنوع کو ختم کرنے کی خواہش ناقابلِ قبول ہے۔ دراصل قرونِ وُسطیٰ کے ان جنگجوؤں کے خلاف جنگ دہشت گردی کے انسداد کی اصل جنگ ہے۔ یہ جنگ عرب دنیا کے ساتھ ساتھ جرمنی اور یورپ میں بھی لڑی جانی چاہیے، جہاں ہزاروں نوجوان اللہ کی راہ میں موت کے راستے پر جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید