آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج، امریکا کو تحفظات
31 جولائی 2018امریکی وزیر خارجہ نے سی این بی سی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے لیکن اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ’بین الاقوامی مانیٹری فنڈ‘ پاکستان کو قرض فراہم کرے اور اس رقم سے پاکستان چین سے حاصل کیا ہوا قرض چکائے۔
پومپیو نے کہا،’’ خیال رکھیں ہم آئی ایم ایف کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ وہ کیا کرے گا۔ اس بات کی کوئی منطق نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کو ٹیکس کی مد میں دی گئی رقم جو امریکی ڈالر سے بھی منسلک ہے اسے چینی سرمایہ کاروں کو پہنچایا جائے۔‘‘
’فنانشل ٹائمز‘ نے اتوار کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان میں وزارت خزانہ کے سینئیر حکام سوچ رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کے آغاز میں آئی ایم ایف سے بارہ ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج لے لیا جائے۔
آئی ایم کی ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے،’’ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ ابھی تک پاکستان کی طرف سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ اور اس حوالے سے پاکستانی انتظامیہ کے ساتھ کوئی مذاکرات بھی نہیں ہوئے۔‘‘ پاکستان کی نئی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج روپے کی گرتی ہوئے قدر کو روکنا ہے۔ بہت سے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہوگی۔ اگر پاکستان کو یہ پیکج ملتا ہے تو گزشتہ پانچ سالوں میں یہ پاکستان کا دوسرا بیل آؤٹ پیکج ہو گا۔
پاکستان چین کی حکومت اور بینکوں کا لگ بھگ پانچ ارب ڈالر کا قرض دار ہے۔ اس رقم سے پاکستان کے بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ حال ہی میں چین نے پاکستان کو مزید ایک ارب ڈالر فراہم کیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ترقی پذیر ممالک کو ترقیاتی کاموں کے لیے چین کی جانب سے قرض فراہم کرنے کی پالیسی پر تنقید کی ہے۔ ان کی رائے میں اس طرح غریب ممالک قرض کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
1980 کے بعد سے پاکستان 14 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے۔ اس میں سن 2013 میں 6.7 ارب ڈالر کا تین سالہ قرض بھی شامل ہے۔
ب ج/ ع ت (روئٹرز)