1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران پاکستان گیس پائپ لائن پھر سے ایجنڈے پر کیوں؟

عبدالستار، اسلام آباد
19 فروری 2024

پاکستان نے ایک بار پھر اشارہ دیا ہے کہ وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے اور اس حوالے سے اکیاسی کلومیٹر کی پائپ لائن بچھانے کی کوشش کرے گا۔

https://p.dw.com/p/4cZrW
Pakistan/Iran Treffen des pakistanischen und des iranischen Außenministers in Islamabad
تصویر: @ForeignOfficePk

سفارتی ذرائع کے مطابق ایران  پاکستان گیس پائپ لائن کے مسئلے پر اسلام آباد اور تہران کے درمیان بات چیت جاری ہے اور ممکنہ طور پر آنے والے چند ہفتوں میں ایرانی ماہرین کی ٹیم پاکستان کا دورہ بھی کرے۔

تاہم کئی مبصرین اس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے اب بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ کچھ کے خیال میں پاکستان کی طرف سے یہ کوشش ہے کہ وہ ایران پاکستان کے مسئلے کو لے کر امریکہ کی توجہ حاصل کرے تاہم کچھ دیگر کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان کے لیے انتہائی مثبت ہے۔

 سفارتی حلقوں میں ایک ذریعے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایران پہلے ہی پاکستان کے بارڈر تک  پائپ لائن  بچھا چکا ہے اور اس حوالے سے گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی۔ اب پاکستان کو اپنے بارڈر تک پائپ لائن بچھانی ہے اور اس کا اگلا مرحلہ اس پائپ لائن کو نواب شاہ تک لے کے جانا ہے۔‘‘

اس ذریعے کے مطابق اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت چل رہی ہے۔ '' اگلے ہفتے یا اگلے چند ہفتوں میں ایرانی ماہرین کا ایک وفد اس م سلسلے میں مزید بات چیت کے لیے پاکستان بھی آئے گا۔‘‘

پاکستان میں شمسی توانائی کی ضرورت اور چیلنجز

ماضی میں بھی اعلانات ہوتے رہے ہیں

دوسری جانب کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پروجیکٹ پر کام اتنا آسان نہیں ہے۔

 لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اعلانات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' دلچسپ بات یہ ہے کہ جو بھی حکومت جا رہی ہوتی ہے وہ اس منصوبے پر کچھ اعلان کر دیتی ہے۔ زرداری صاحب نے اپنے دور حکومت میں جانے سے پہلے اس پر کچھ پیشرفت کی کوشش کی تھی اور اب نگراں حکومت بھی یہی اعلان کررہی ہے۔‘‘

Pakistan Iran Konflikt Belutschistan
حالیہ دنوں میں ایران اور پاکستان کے مابین تعلقات کشیدہ ہو گئے تھےتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

احسن رضا کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ''پاکستان کو اگلے مالی سال میں 49 ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی اور دوسری مد میں چاہیے۔ ایسی صورت میں اس پروجیکٹ کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔‘‘

توجہ ہٹانے کی کوشش

احسن رضا کا کہنا تھا کہ پاکستان ممکنہ طور پر امریکہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس پروجیکٹ پر پیش رفت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''اگر پاکستان نے اس پروجیکٹ پر کام کرنے کی کوشش کی تو یقیناً امریکہ سے تعلقات خراب ہوں گے اور دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھے گی جس کی وجہ سے عوام کی توجہ موجودہ احتجاجی صورتحال سے ہٹ کر اس کشیدگی پر ہو جائے گی۔‘‘

ایم کیو ایم کی سابق رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ اس خیال سے اتفاق کرتی ہیں کہ ہماری طرف سے اس معاملے میں سنجیدگی نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو  سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ہم اس معاملے میں امریکہ کو ناراض کر سکتے ہیں۔ نگراں حکومت اس پر بس ایک شوشہ چھوڑ کے جا رہی ہے۔‘‘

توانائی کا بحران، کیا بازار جلد بند کرنا درست قدم؟

کشور زہرہ کے مطابق ابھی تو پاکستان خود اپنے کئی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ ''ابھی تک تو یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ وفاقی سطح پہ حکومت کون بنائے گا؟ سیاسی جماعتیں حکومت بنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، تو حکومتی پالیسی اور حکومتی پروجیکٹس تو دور کی بات ہے۔‘‘

پروجیکٹ کا پس منظر

ایران پاکستان پروجیکٹ کافی عرصے سے زیر بحث ہے اور ایک مرحلے پر بھارت بھی اس میں شمولیت اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اسے ماضی میں  ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن کا نام دیا گیا تھا لیکن بعد میں امریکی دباؤ کے پیش نظر بھارت اس سے نکل گیا تھا۔

 

مارچ 2013 ء میں اس پروجیکٹ کا  افتتاح کیا گیا تھا۔ اس وقت اس منصوبے کی لاگت تقریبا سات اشاریہ پانچ بلین ڈالر تھی۔ پاکستان کو جنوری 2015 ء تک اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانی تھی لیکن فروری 2014 ء میں اس وقت کے وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث اسے  ناقابل عمل قرار دیا تھا۔

 

پاکستان میں توانائی کا بحران، بے بس عوام کیا کہتے ہیں؟

ایران نے اپنے حصے کی 1150 کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھا دی ہے جبکہ پاکستان کو سات سو اکیاسی کلومیٹر کی پائپ لائن بچھانا ہے۔ اس حوالے سے ایران نے بین الاقوامی اداروں سے بھی قانونی چارہ جوئی کے لیے رابطہ کیا ہے اور اگر پاکستان نے اس سال ستمبر تک اس پروجیکٹ کو مکمل نہیں کیا، تو اس پر ممکنہ طور پر 18 ارب ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

Iran | Öl | Energie | Export
ایران عالمی پابندیوں کے بیچ اپنی توانائی کی پیداوار کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہےتصویر: imago images

مثبت پروجیکٹ

اس صورتحال کے پیش نظر کچھ سیاستدان اس منصوبے پر پیشرفت کی خبروں کو انتہائی مثبت قرار دے رہے ہیں۔ سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم منڈی والا کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان میں توانائی کا شدید بحران ہے اور ایران کے علاوہ اس وقت ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

امریکی اعتراضات

 ایران پر مختلف طرح کی بین الاقوامی پابندیاں ہیں جس کی وجہ سے امریکہ وقتاً فوقتاً پاکستان پر اس حوالے سے دباؤ ڈالتا رہا ہے۔

 سلیم ماونڈی والا کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اس مسئلے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ''جاپان، بھارت اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک ایران سے تیل خرید رہے ہیں اور اگر پاکستان ایران سے اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے گیس لیتا ہے تو امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر شاہد محمود کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان امریکی خواہشات کے خلاف نہیں جا سکتا۔  انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایران کے مسئلے پر پاکستان کو امریکی خواہشات کا پاس رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان  نے اس مسئلے پر امریکہ اور یورپی یونین کو قائل کیا ہوگا اور ممکنہ طور پر اس میں فنڈنگ چین سے آئے گی۔‘‘

شاہد محمود کے مطابق دو مراحل میں اس پروجیکٹ کو مکمل کرنا پاکستان کی مجبوری ہے۔ '' کیونکہ مالی اور انتظامی اعتبار سے ایک مرحلے میں اس کو مکمل کرنا آسان نہیں ہے۔‘‘