آئین میں ترامیم، اردن میں ہزاروں افراد کا مظاہرہ
5 مارچ 2011جمعہ کی نماز کے بعد عمان شہر کے مرکز میں مظاہرے میں شریک اسلام پسندوں کے علاوہ ٹریڈ یونینز کے نمائندے اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ ان افراد کا مطالبہ تھا کہ ملک میں انتخابات کا نیا قانون متعارف کروایا جائے۔
مظاہرین نے اردن کے قومی پرچم اٹھا رکھے تھے۔ اسلام پسند رہنماؤں کے مطابق مظاہرے میں 10 ہزار سے زائد افراد شریک ہوئے جبکہ پولیس کے مطابق مظاہرین کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ ان مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر تحریر تھا، ’ہمیں روٹی اور آزادی چاہیے۔‘ اور ’چلو مل کر پارلیمان تحلیل کر دیں۔‘
ان مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک سے شاہی نظام کا خاتمہ کر کے بادشاہت کو آئینی ضابطوں کا پابند بنایا جائے۔
اردن میں تنظیم الاخوان المسلمین کے ترجمان جمیل ابو بکر نے اس موقع پر مظاہرین سے خطاب میں کہا، ’ہم سختی سے اپنے مطالبات پر قائم ہیں کہ ملک میں جدید انتخابی قانون رائج کیا جائے۔ جلد انتخابات کروائے جائیں اور حکومت کی تشکیل کا نیا طریقہ ترتیب دیا جائے۔ اس کے علاوہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بھی کوششیں کی جانی چاہئیں۔‘
اس سے ایک روز قبل اردن کے وزیراعظم معروف البخيت نے پارلیمان میں اراکین سے خطاب میں کہا کہ چند گروہوں کی جانب سے آئین میں ترامیم کے مطالبات ’اردن کے سیاسی نظام کو غیرمتوازن‘ کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم معروف البخيت نے کہا کہ وہ عوامی مطالبات سمجھتے ہیں تاہم ملک سے شاہی نظام کا خاتمہ فی الحال ممکن نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ تمام جماعتوں کو ساتھ مل کر ملک میں ’حقیقی‘ مگر ’بتدریج‘ اصلاحات کے لیے کوشاں ہیں۔
اردن میں قوم پرستوں اور اسلام پسندوں کی طرف سے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے، جسے ’آئینی بادشاہت کے لیے کاوش‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ اس طرح اردن کو ایک ایسا ملک بنانے کی کوشش کی جائے گی، جہاں شاہ کو حاصل مطلق العنانیت اور اختیار کے بجائے آئینی تقاضوں کا پابند کیا جائے گا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : ندیم گِل