آئین میں ترامیم، یکم جنوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب
30 دسمبر 2014فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاسی قیادت کے اتفاق رائے کے باوجود انسانی حقوق کی ملکی وغیر ملکی تنظیموں، قانونی حلقوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ فوجی عدالتوں کی مخالفت میں تازہ ترین بیان سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے سامنے آیا۔ منگل کے روز اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہان کا فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ملکی آئین سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین سے انحراف کر کے کیے گئے فیصلوں کی کوئی قانونی حثیت نہیں ہوتی۔
افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ’’ فوجی عدالتوں کے سلسلے میں کی جانے والی تمام باتیں بلکل غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں۔ یہ ہمارا جو آئین ہے اس کی بنیاد یہ ہے کہ اس ملک میں ایک آزاد عدلیہ ہوگی۔ یہ آزاد عدالیہ کی موجودگی میں اس طرح کی کوئی عدالتیں قائم نہیں ہو سکتیں۔‘‘ سابق چیف جسٹس کا مزید کہنا کہ اگر فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم کر بھی لی جائے تو وہ غیر آئینی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی ناکامی کو عدالیہ کی ناکامی نہیں بنایا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ حکومت کی قانونی ٹیم اس وقت آئین کے ساتھ ساتھ پاکستان آرمی ایکٹ میں ترامیم لانے کے لیے مسودوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔ تاہم بلوچستان ہائیکورٹ کے سابق جج اور سپریم کورٹ کے وکیل جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ’’میں اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہوں کہ یہ جو عدالتی نظام ہے اس نے وہ کچھ ڈلیور نہیں کیا جس کی لوگ توقع کر رہے تھے۔ یہ جو انسداد دہشتگردی کا قانون ہے اس سے شاید وہ نتائج نہیں نکل سکتے جس کی لوگ توقع کر رہے تھے۔ لیکن یہ بات میری سمھجہ سے بالاتر ہے کہ ایک ایسا ادارہ جس کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے یا مقدمات کی سماعت کرنا ہے ان سے یہ کام لے کر ایسے لوگوں کو دے دیا جائے جن کی ایسی کوئی تربیت نہیں ہے۔ ‘‘
سپریم کورٹ کے ایک اور وکیل اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ تاثر بھی زور پکڑ رہا ہے کہ فوجی اسٹبلشمنٹ پشاور واقع کو بنیاد بنا کر جمہوری حکومت سے اپنی مرضی کے فیصلے کرا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’پشاور کا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے، جس میں معصوم بچوں کا قتل عام ہوا۔ مگر جو صورتحال فوری طور پر درپیش نظر آئی اس میں پھانسیاں دی گئیں اور وہ کیس لیے گئے جن پر فوجی عدالتوں نے فیصلے دیے پرویز مشرف کے حوالے سے۔ اس پر بہت سارے تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ قوانین کی پاسبانی تمام سول اور فوجی اداروں کا فرض ہے۔‘‘
دوسری جانب سیاسی جاعتوں کے اندر سے بھی فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے رہنما حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں بلکہ ملک میں موجود انسداد دہشت گردی کے قوانیں پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔