آئینی ترامیم: حکومت اور پس پردہ طاقتیں ناکام؟
16 ستمبر 2024پاکستان کی دلچسپ سیاست میں ہونے والے ہنگامہ خیز واقعات کے سلسلے میں کچھ دیر کے ٹھہراؤ آتا دکھائی دے رہا ہے۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے گئے ہیں اور اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ متنازعہ آئینی ترامیم کا وہ مسودہ جس کی کاپی، اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کے علاوہ خود حکومتی شخصیات کے پاس بھی نہیں تھی وہ آخر کہاں سے آیا اور وہ کون ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عدلیہ کی آزادی کے منافی ترامیم کروانا چاہتا ہے۔ پاکستان کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار نوید چوہدری کے بقول ان ترامیم کا ڈرافٹ مسلم لیگ ن کی حکومت کا نہیں لگتا: ''ہو سکتا ہے کہ یہ ڈرافٹ شاید طاقتور حلقوں نے انہیں بھیجا ہو۔‘‘
پی ٹی آئی اور فوج آمنے سامنے، ملکی استحکام خطرے میں؟
پاکستان: 'پارلیمان اب تک تقدس کے حصول کی کوششوں میں'
حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لیے یہ عندیہ دے رہی ہے کہ ان ترامیم پر مزید اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد اسے پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے گا۔ میڈیا کی طرف سے آئینی ترامیم کے منظور نہ ہونے کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے والے سینیٹر فیصل واڈا کا پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا نام لیے بغیر کہنا تھا، ''نا اہل اور نکمے لوگوں سے یہی توقع کی جا سکتی تھی۔‘‘
سیاسی مبصرین کے مطابق ان ترامیم کی منظوری کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ کے صدر میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا تھا، لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ نوید چوہدری کے مطابق، ''مولانا فضل الرحمان کو جس طریقے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاست میں سائیڈ لائن کیا گیا وہ یہ دکھ ابھی تک نہیں بھولے اور انہوں نے اسی لیے حکومت اور اسٹیبلشنمنٹ کے سامنے اپنا خاموش احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف نے بھی ان ترامیم کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کی منظوری کے لیے ان کے کچھ ارکان اسمبلی کو اغوا کر کے پنجاب ہاؤس میں رکھا گیا تھا۔ ترامیم کی منظوری میں ناکامی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کا سوشل میڈیا پر جشن جاری ہے۔
وکلا کا ترامیم کے خلاف تحریک چلانے کا ارادہ
پاکستان بھر کے وکلا نمائندوں کو ان ترامیم کے خلاف تحریک چلانے کے حتمی لائحہ عمل کے اعلان کے لیے 19 ستمبر کو لاہور میں بلا لیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اسد منظور بٹ ایڈوکیٹ نے بتایا کہ اس وقت مجوزہ وکلا تحریک کو پاکستان بھر کی وکلا تنظیموں اور وکلا کے منتخب نمائندوں کی حمایت حاصل ہے: ''بڑھتی ہوئی مہنگائی، وکلا کی گرفتاریاں اور آئین پر حکومتی حملوں کے بعد اب اسٹیج تیار ہے اور وکلا اپنی تحریک کے ذریعے حکومت کو غیر قانونی اقدامات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیں گے۔ صرف 35 سو ووٹوں کی حامل سپریم کورٹ بار کے صدر اور حکرمت سے مراعات حاصل کرنے والے چند ایک وکلا رہنماؤں کے علاوہ سب لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ صرف لاہور ہائی کورٹ کے 50 ہزار ممبر ہیں، جو جمہوریت کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل بابر سہیل کے بقول، ''حکومت کی ساکھ بہت کمزور ہو گئی ہے، اور حالات جس طرف جا رہے ہیں، انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وکلا کی تحریک حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘
تجزیہ کار نوید چوہدری کے مطابق آئینی ترامیم کے منظور نہ ہونے سے یہ بحران بہت سنگین ہو گیا ہے: ''وہ فریق جو یہ سمجھتا ہے کہ عدالتیں اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں اور یہ کہ ابھی تک نو مئی کے مجرمان کو سزائیں نہیں مل سکی ہیں، اگر یہ ترامیم آئینی طریقے سے اگلے کچھ دنوں میں منظور نہیں ہوتیں تو پھر اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ یہ معاملہ کہیں غیر آئینی طریقے سے طے نہ ہو۔‘‘
ادھر پاکستانی الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے پارٹی الیکشن کے حوالے سے کیسز 18 ستمبر کو سننے کا اعلان کیا ہے۔