آباد کاری پر عارضی پابندی، اسرائیل کی مشروط پیشکش
12 اکتوبر 2010فلسطینی رہنماؤں نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی اس مشروط پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ اس وقت اسرائیلی قیادت پر شدید عالمی دباؤ ہے کہ وہ مغربی اردن کے مقبوضہ علاقوں میں نئے مکانات کی تعمیر پر مزید عارضی پابندی عائدکی جائے۔
اسرائیلی حکام نے ان مقبوضہ علاقوں میں آباد کاری پر دس ماہ کی عارضی پابندی عائد کی تھی، جو ستمبر کے اواخر میں ختم ہو گئی۔ اس پابندی میں مزید توسیع نہ کرنے کے اسرائیلی فیصلے پر فلسطینی رہنماؤں نے براہ راست امن مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ سمیت عالمی برادری کی کوشش ہے کہ اسرائیل اس پابندی کی مدت میں توسیع کر دے تاکہ ایک عرصے بعد شروع ہونے والے امن مذاکرات مزید تعطل کا شکار نہ ہوں۔
اس صورتحال میں پیر کو اسرائیلی وزیراعظم نے پارلیمان سےخطاب کے دوران کہا،’ اگر فلسطینی قیادت اپنے عوام کو واضح طور پر یہ پیغام دے کہ وہ اسرائیل کو یہودیوں کی ایک قومی ریاست کے طور پر تسلیم کرتی ہے، تو میں تیار ہوں کہ اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کر کے اسے آباد کاری پر مزید عارضی پابندی عائد کرنے کے لئے کہوں‘۔
اپنے نشریاتی خطاب میں انہوں نے کہا کہ یہ بات وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں تاہم اب وہ یہ مشروط پیشکش عوامی سطح پر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی مذاکرت کار صائب عريقات نے اس پیشکش کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ، ’اس مشروط پیشکش کا امن عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے ہم اسے قطعی طور پر رد کرتے ہیں‘۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو شدید عالمی دباؤ کے باوجود بھی مقبوضہ مغربی اردن میں نئی آباد کاری کے سلسلے کو روکنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اس عمل کا امن مذاکرات پر اثر نہیں پڑنا چاہئے۔
فلسطینی صدرمحمود عباس دو ٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کی طرف سے اگر یہودی آباد کاری نہ روکی گئی تو وہ امن مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔ عرب لیگ کے رہنماؤں نے بھی محمود عباس کے موقف کی تائید کی لیکن ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کو ایک ماہ کی مہلت دی کہ وہ اس معاملے کے حل کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔
دوسری طرف دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کم ازکم پچاس مظاہرین نے تل ابیب میں واقع امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاج کیا۔ انہوں نے وہاں چسپاں امریکی صدر باراک اوباما کی تصویر پر جوتے پھینکے اور انڈے بھی برسائے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ نئے مکانات کی تعمیر کو روکنے کے لئے اپنا دباؤ نہ ڈالے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی یہودی شناخت کا تسلیم کیا جانا امن عمل کے لئے کبھی بھی کوئی اہم نکتہ نہیں تھا، تاہم سن2009ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اسرائیلی وزیر اعظم نے اس معاملے کو امن مذاکرات کے ایجنڈے کا ایک اہم جزو قرار دیا ہے۔ سن 1993ء میں اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی رہنماؤں نے اسرائیل کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا تاہم اس وقت بھی اس ریاست کی یہودی شناخت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی