پاکستان کے قیام کی پچھترویں سالگرہ پر بانی پاکستان نے معروف پاکستانی طنز نگار انور مقصود کے نام اپنے ایک فرضی خط میں دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، ''آزادی ایک نعمت ہے۔ تم لوگوں نے اس کی قدر نہیں کی۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اگر محمد علی جناح آج زندہ ہوتے، تو پاکستانی قوم کو کیا پیغام دیتے؟ انور مقصود نے بانی پاکستان کے اپنے نام اس فرضی خط کا سہارا لیتے ہوئے چند تلخ حقائق بیان کیے ہیں۔
14 اگست 1947ء کے روز برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے دنیا کے نقشے پر وجود میں آنے کے بعد اس ملک کے بانی محمد علی جناح بمشکل ایک سال ہی زندہ رہے۔ اس ایک سال کے عرصے میں بھی جناح اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے بہت فعال نہیں تھے۔ مؤرخین جناح کی زندگی، ان کی جدوجہد اور انتھک محنت کے بارے میں بہت کچھ تحریر کر چکے ہیں۔ اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے کہ جناح کا اتنا جلد چلے جانا اس نومولود ریاست کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہوا تھا۔
بہت سے مصنفین، تاریخ دان اور سیاسی اور معاشرتی امور کے ماہرین اس موضوع پر بھی قلم اٹھا چکے ہیں کہ محمد علی جناح کی قیادت میں وجود میں آنے والے ملک پاکستان کی مجموعی صورت حال آج اس سے کتنی مختلف ہے، جس کا کہ جناح نے خواب دیکھا تھا؟
طنز نگار انور مقصود نے پاکستان کی قیام کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر جناح کے ایک فرضی خط کا ذکر کرتے ہوئے دراصل یہ کہا کہ انہوں نے قائد اعظم کہلانے والے اس رہنما کو پاکستان کے پچھترویں یوم آزادی کے موقع پر مبارکباد کا جو خط لکھا تھا، اس کا جواب انہیں موصول ہو گیا ہے۔ اس جوابی تحریر کا ایک ایک لفظ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک کی مجموعی صورت حال کی عکاسی انتہائی گہرے انداز میں کرتا ہے۔ اس خط کے متن کا سننے والوں کے لیے ہر جملہ معنی خیز ہے، جسے سوچ و ادراک پر پردوں کو ہٹا کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ جناح نے انور مقصود سے کہا کہ وہ تو پچھتر سال سے پاکستان میں ہیں جب کہ خود جناح تو مشکل سے ایک سال بھی اس سر زمین پر نہ گزار پائے، جس کے لیے انہوں نے جدوجہد کی اور کروڑوں انسانوں نے قربانیاں دیں۔ یہاں قارئین اور سامعین کے لیے ایک سوال اٹھتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال کن حالات میں، کیسے اور کن اثرات کے باعث ہوا؟
جناح نے انور مقصود کے نام اپنے فرضی خط میں لکھا، ''تم لوگ بہت سیدھے ہو۔ الیکشن میں پتھروں کو ووٹ دے کر ہیرے تلاش کرتے ہو۔ ہیرے تمہاری قسمت میں نہیں ہیں۔ کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں؟ تم لوگوں کی حالت وہی رہی۔‘‘ آج پاکستانی قوم اسی تذبذب کا شکار ہے۔
پاکستان بنانے والے محمد علی جناح نے اس ملک کا تصور پیش کرنے والے اور اس کی آزادی کا خواب دیکھنے والے علامہ محمد اقبال اور خود اپنی جانب سے کہا، ''ہم دونوں سے اگر کوئی غلطی ہوگئی ہو، تو ہمیں معاف کر دو۔‘‘ کیا یہ جملہ قائد اعظم اور محمد اقبال کی اس تکلیف کا اظہار نہیں، جو وہ اس وقت اس ملک اور قوم کی صورت حال پر محسوس کرتے ہوں گے؟
قائد اعظم نے پاکستان کی تاریخ کے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھنے والے واقعے کا بھی ذکر انتہائی لطیف پیرائے میں کرتے ہوئے اس پر اپنے افسوس کا اظہار یوں کیا، ''میں سمجھ رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کے چلے جانے کے بعد تمہاری حکومت چودہ اگست کی چھٹی آدھے دن کی کر دے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آزادی ایک نعمت ہے۔ انور مقصود! تم لوگوں نے اس کی قدر نہیں کی۔‘‘
آج پاکستان کی معاشی اور سیاسی مشکلات کے سبب اس کی ساکھ کو عالمی سطح پر جو چوٹ لگ رہی ہے، اس پر بھی بانی پاکستان اپنی بےچینی ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ''ماں جب بچے کو جنم دیتی ہے، تو وہ آزاد ہوتا ہے۔ مگرجب وہ جوان ہوتا ہے، تو تمہاری حکومتیں اس کو غلام بنا دیتی ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ لوگوں کو سمجھا دو، مقروض بچے پیدا کر نے کا کیا فائدہ؟‘‘
چودہ اگست کی مناسبت اور نئے پاکستان کے نعرے کی ہر طرف گونج کے بارے میں قائد اعظم نے اپنے اس فرضی خط میں لکھا، ''آج پاکستان کے لیے خوشی کا دن ہے۔ ایک بات کہوں، ان پچھتر برسوں میں پہلی مرتبہ پاکستان سے ایک خوشی کی خبر آئی ہے۔ امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور چین نے پاکستان کو پیسے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ شاید اس کے بعد تم لوگ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ جاؤ۔ سنا ہے قومی ترانے کی موسیقی بھی نئے سرے سے ترتیب دی جا رہی ہے۔ وہ تو بہت اچھی تھی کیوں بدلی جا رہی ہے؟ ڈر لگ رہا ہے کہیں ترانہ بھی نہ بدل دیں۔‘‘
محمد علی جناح اس پوری مایوس کن صورت حال کے باوجود اپنے ملک کے لیے بہتری کی امید کا دامن پکڑے دعا گو ہیں اور اس خط میں کہتے ہیں، ''اللہ کرے کہ آنے والے دن جانے والے دنوں کی طرح کے نہ ہوں۔‘‘
بانی پاکستان نے اپنی اس تحریر کے آخر میں اپنے مخاطب سے کہا، ''کس بات کا جشن ،انور، لیکن آزادی مبارک ہو۔ محمد علی جناح۔ میں نے قائد بھی نہیں لکھا۔ جیتے رہو، میری طرف سے سارے پاکستان کو مبارک کہہ دینا۔ پاکستان زندہ بعد۔‘‘
اس مختصر سی تحریر میں بہ زبان قائد جن چند حقائق کا ذکر کیا گیا ہے، وہ پاکستانی قوم کے لیے سوچنے، غور کرنے اور اگر ممکن ہو تو اس کے تدارک کے لیے کچھ کر گزرنے کا مقام ہے۔ قوم زندہ ہو تو اسے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہی پڑتا ہے۔ محض نعرے بازی سے اپنی اپنی سیاست کی دکانیں سجانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ عوام کا باشعور ہونا اس کی اولین شرائط میں سے ایک ہے۔