مصری ، اردنی ، ترک ، افغان ، ازبک وغیرہ اگرچہ ہمارے ہم مذہب ہیں مگر ان سے ویسا لگاؤ کبھی نہیں رہا جیسا نجد و حجاز اور پھر ان علاقوں کی جانشین ریاست سعودی عرب کے ساتھ ۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف ( اقبال )
مجھے یاد ہے کہ انیس سو ستر کی دہائی میں جب ایک عام پاکستانی کی بین الاقوامی سفری پاسپورٹ تک رسائی ہوئی۔ اس میں لکھا جاتا تھا کہ یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل اور جنوبی افریقہ باقی ممالک کے لیے کارآمد ہے ۔اس پاسپورٹ نے خلیجی ممالک میں روزگار کا راستہ کھولا۔ پاکستان میں خلیجی پیسے سے مساجد و مدارس کھلنے لگے اور ان مساجد و مدارس کے نگراں اور دیکھ بھال کرنے والوں کا روزمرہ معیارِ زندگی بہتر ہوتا چلا گیا۔ بہت سوں کے ہاتھ میں بیک وقت معاشی اور سیاسی طاقت بھی آ گئی۔
خلیجی ریاستوں بالخصوص سعودی عرب سے جو کارکن چھٹی لے کر واپس آتے تھے ان کی ظاہری وضع قطع تبدیل ہوتی ۔جمعہ کے دن بہت سے ادھیڑ اور عمر رسیدہ پاکستانی عربی چوغہ پہن کے سر پے عقال باندھے مسجد میں آتے جاتے نظر آتے۔رفتہ رفتہ خدا حافظ کی ایرانی تہذیب نے اللہ حافظ کا لبادہ اوڑھ لیا۔
بھٹو صاحب نے تو سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں سے اقتصادی روابط استوار کرنے پر زیادہ توجہ دی مگر ضیا الحق کے آتے ہی سوویت یونین کے طفیل افغان خانہ جنگی بھی آ گئی اور پھر ڈالر اور ریال کا رخ بھی اس طرف ہو گیا۔
چنانچہ پاکستانی ریاست نے سعودی فقہا و علما کی مدد سے شرعی قوانین کا وہی ماڈل ترتیب دینا شروع کیا جو سعودی عرب میں مروج تھا۔کئی قوانین کو ہو بہو اپنا لیا گیا اور کئی میں پاکستانی ماحول کے اعتبار سے تھوڑی بہت ترامیم کی گئیں۔ اس دور میں پاکستانی اشرافیہ نہ صرف خادم حرمین و شریفین کی خدام نظر آنے لگی بلکہ نظریاتی نقالی بھی باعثِ فخر ہوتی چلی گئی ۔
شاید ہی کوئی غیر بریلوی و غیر جعفری منبر ایسا ہو جس پر براجمان مولانا اپنی تقریر میں یہ حسرت ظاہر نہ کرتے ہوں کہ نظام ہو تو سعودی عرب جیسا ورنہ نہ ہو۔سعودی نظام پر بلاواسطہ تنقید کو بھی مذہب دشمنی جیسا سمجھا جاتا تھا۔ دیوبندی اور سلفی مکتبِ فکر سعودی عرب کی ہر ادا کا رطب السان تھا۔ ایک عام پاکستانی کے لیے سعودی نظام اور طرزِ زندگی نہ صرف قابلِ تقلید بلکہ ایسا اٹل نمونہ تھا جس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔
حالانکہ سعودی جیلوں میں ہر وقت سینکڑوں پاکستانی چھوٹے موٹے جرائم یا غیرقانونی قیام کے سبب بند رہتے تھے اور رہتے ہیں۔ ہر برس سینکڑوں تارکینِ وطن ڈی پورٹ بھی ہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔ مگر ہم سب کا پختہ خیال تھا کہ ضرور انہوں نے ہی کوئی قانون شکنی کی ہو گی کیونکہ سعودی نظامِ انصاف تو ناانصافی کرنے سے رہا۔
چونکہ ہم طبعاً جذباتی لوگ ہیں لہذا یہ جذباتی پن محض یکطرفہ سعودی محبت کے ساتھ نتھی نہیں تھا۔ بائیں بازو کے لوگوں کا خمیر بھی تو آخر اسی مٹی سے اٹھا ہے۔ چنانچہ جو ستر کے عشرے تک چین نواز کامریڈ تھا اس کے نزدیک چین ہر اعتبار سے مکمل مثالیہ تھا اور جو نوے کی دہائی تک روس نواز تھا وہ سوویت یونین کی شان میں معمولی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
ایران سے عقیدت کم نہیں ہوئی بس یہ ہوا کہ پہلے جن ریستورانوں اور گھروں میں رضا شاہ پہلوی کی تصویر فخریہ انداز میں ٹنگتی تھی، وہی جگہ آیت اللہ خمینی کی تصویر نے لے لی۔
چونکہ ہم محبوب اور محبوب ریاست میں فرق کر نہیں سکتے یا کرنے سے گھبراتے ہیں لہذا اس حقیقت کا سامنا بھی نہیں کر پاتے کہ کوئی بھی ریاست آپ کے خود ساختہ آئیڈیل ازم کے پنجرے میں نہیں رہتی بلکہ اپنی ضرورتوں اور مفادات کے تحت فیصلے بھی کرتی ہے اور بدل بھی سکتی ہے۔
مگر ہم چونکہ اتنی گہری اور تیز رفتار تبدیلی ہضم کرنے کے قابل نہیں ہوتے لہذا ذرا سی ٹھیس لگنے سے نہ صرف ہمارے اندر کا شاندار لافانی بت ریزہ ریزہ ہوتا جاتا ہے بلکہ ہم بہت دیر کے لیے سناٹے میں آ جاتے ہیں اور کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ اس موڑ سے آگے کہاں جانا ہے ۔
گذشتہ چار پانچ برس میں سعودی عرب کا ہر نظریاتی و غیر نظریاتی شعبے میں یوٹرن لینا پاکستان کے ایک عام مولوی اور سیدھے سادے عقیدت مند کے لیے اتنا ہی بڑا نفسیاتی جھٹکا ہے جیسا جھٹکا انیس سو نوے میں یہاں کے بائیں بازو کے عام کارکنوں کو سوویت یونین کی نظریاتی تحلیل سے لگا یا اس سے بھی پہلے چین نواز کارکنوں کو تب لگا جب بیجنگ نے ماؤ زے تنگ کے خالص نظریاتی راستے کو چھوڑ کے سرمایہ داری کی شاہراہ پر موڑ کاٹا ۔
کل کا سعودی عرب جتنا 'نظریاتی‘ تھا۔ آج کا سعودی عرب اس سے زیادہ 'عملیت پسند‘ ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے واشنگٹن میں ایک خصوصی انٹرویو میں بہت واضح اشارہ دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں کوئی حرج نہیں اور اس بارے میں محتاط پیش رفت جاری ہے جس کا جلد کوئی مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے ۔
کل تک جو لوگ سعودی نظام کو ایک مثالیہ سمجھ کے کہتے تھے کہ ہمارے ہاں بھی اگر ویسا ہی نظام آجائے تو زندگی سنور جائے ۔آج انہیں لوگوں سے پوچھا جائے کہ کیا اب بھی آپ اپنے موقف پر قائم ہیں تو ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ نہ کہہ سکتے ہیں نہ سہہ سکتے ہیں۔
چلتا ہوں تھوڑی دیر ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں ( غالب )
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔